کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 146
اپنے سوتیلےبھائیوں سے سیدنا یوسف کا اپنےبھائی کو لانے کا مطالبہ " ﴿وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ ۔ ۔ ۔﴾:جَھَازٌ“ وہ سامان جس کی مسافر کو ضرورت ہوتی ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا : (ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ ) یہ نہیں کہا ” بِأَخِیْکُمْ “ کہ اپنے بھائی کو جو تمہارے باپ سے ہے لے کر آنا، بلکہ ” بِاَخٍ لَّكُمْ “ کہا، یعنی ” اَخٌ“ کو نکرہ رکھا، تاکہ بھائیوں کے سامنے یہی ظاہر ہو کہ عزیز مصر اس بھائی کو نہیں جانتا۔ یہ سب سے چھوٹے اور یوسف (علیہ السلام) کے سگے بھائی تھے۔ ان کا نام بنیامین مشہور ہے جس کی کوئی پختہ دلیل نہیں ، جیسا کہ عزیز مصر کا نام ” فوطیفار “ ، اس کی بیوی کے نام ” زلیخا “ یا ” راعیل “ ، بادشاہ کا نام ” ریان بن ولید “ اور یوسف (علیہ السلام) کے دوسرے بھائیوں کے ناموں کی دلیل اسرائیلی روایات کے سوا کچھ نہیں ، جن پر اعتبار ممکن نہیں ۔ یوسف (علیہ السلام) کی اس فرمائش سے معلوم ہوتا ہے کہ خود بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے خاندان کا تعارف کرواتے ہوئے اس بھائی کا ذکر کیا۔ " [1] "یوسف (علیہ السلام) نے انہیں غلہ بھروا دیا اور کہا اب جو آنا تو اپنے بھائی کو بھی اپنے ساتھ لیتے آنا تاکہ تمہارا سچ معلوم ہوجاوے۔ دیکھو میں نے تمہاری بہت خاطر کی ہے اور اچھی طرح مہمان رکھا ہے اور غلہ بھی بھرپور دیا ہے اگر اب اپنے اس بھائی کو نہ لاؤ گے تو تمہیں غلہ نہ دیں گے اور نہ اپنے پاس جگہ دیں گے ان لوگوں نے کہا کہ نہیں ہم ضرور اس کو اپنے ساتھ لائیں گے اور اگرچہ باپ اس کو اپنے پاس سے علیحدہ نہیں کرتے مگر ہم انہیں سمجھا بوجھا کر جس طرح ممکن ہوگا اسے اپنے ساتھ لیتے آئیں گے جب یوسف (علیہ السلام) نے پختہ وعدہ ان سے لے لیا کہ وہ ضرور ان کے چھوٹے بھائی کو جس کا نام بنیامین ہے لائیں گے تو ان لوگوں کو رخصت کیا جب وہ جانے لگے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خدمت گاروں سے کہہ دیا کہ انہوں نے غلہ کی جو قیمت دی ہے وہ چھپا کر ان کے بوجھوں میں ڈال دو اور ان کی گٹھڑیوں کو باندھ دو یہ ترکیب اس واسطے کہ شاید باپ کے پاس اور کوئی نقدی مال وغیرہ نہ ہو جس سے دوبارہ غلہ خریدنے کا انہیں موقع نہ ملے یا اس واسطے کہ بادشاہ بھائی سے کھانے پینے کی چیز کی قیمت کیا لیں یا اس واسطے کہ جب گھر جائیں گے اور وہاں اپنی
[1] حافظ عبد السلام:تفسیر القرآن العظیم۔