کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 145
باپ اسے بہت چاہتے تھے اب اس کی جگہ سب سے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں اور اپنی نظروں سے اسے علیحدہ نہیں کرتے۔" [1] "سدی نے کہا : حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے پاس گیارہ اونٹ تھے جبکہ وہ خود دس تھے۔ انہوں نے حضرت یوسف کو کہا : ہمارا ایک اور بھائی بھی ہے جو پیچھے رہ گیا ہے اور اس کا اونٹ ہمارے ساتھ ہے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ وہ کیوں پیچھے رہ گیا ؟ تو انہوں نے کہا : اس کے باپ کی اس کے ساتھ محبت کی وجہ سے۔ اور انہوں نے آپ کو بتایا کہ اس کا ایک بڑا بھائی بھی تھا جو جنگل میں گیا اور ہلاک ہوگیا، آپ نے انہیں فرمایا : میں تمہارے اس بھائی کو دیکھنا چاہتا ہوں جس کا تم نے ذکر کیا ہے تاکہ میں تمہاری صداقت اور اس کے ساتھ اس کے باپ کی محبت جان سکوں ۔۔ ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ترجمان کو کہا کہ انہیں کہو : تمہاری زبان ہماری زبان کے خلاف اور تمہارا لباس ہمارے لباس کے مخالف ہے تم کہیں جاسوس تو نہیں تو انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ! ہم جاسوس نہیں بلکہ ہم ایک باپ کے بیٹے ہیں اور وہ بوڑھا آدمی ہے، اس نے کہا : تمہاری تعداد کتنی ہے ؟ انہوں نے کہا : ہم بارہ تھے ہمارا ایک بھائی جنگل گیا تھا اور وہیں ہلاک ہوگیا۔ آپ نے فرمایا : دوسرا کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا : ہمارے باپ کے پاس : آپ نے فرمایا : کون تمہاری سچائی کو جانتا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہاں ہمیں کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہم نے آپ کو اپنے نسب کے بارے میں آگاہ کردیا ہے، تو اب آپ کو ہم کس طرح اطمینان ہوسکتا ہے ؟ تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا : ائتونی باخ لکم من ابیکم (اپنے باپ سے اپنے بھائی کو میرے لے آؤ) اگر تم سچے ہو : تو میں مطمئن ہوجاؤں گا الاترون انی اوفی الکیل یعنی میں وزن پورا کرتا ہوں اور اس میں کوئی کمی نہیں کرتا اور تمہارے بھائی کے لیے ایک اونٹ کا وزن زیادہ دے رہا ہوں فان لم تاتونی بہٖ فلا کیل لیکم عندی اگر تم اس کو میرے پاس لے کر نہ آئے تو پھر میرے پاس تمہارے لیے کچھ نہیں ۔ آپ نے انکو دھمکی دی کہ اگر وہ اسے نہ لیکر آئے تو آپ انہیں غلہ نہیں بیچیں گے ۔" [2] ﴿وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِيْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْ ۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّىْٓ اُوْفِي الْكَيْلَ وَاَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِيْن()﴾فَاِنْ لَّمْ تَاْتُوْنِيْ بِهٖ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِيْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ ﴾
[1] حافظ محمد سید احمد حسن :احسن التفاسیرجلد،3،صفحہ176،177۔ [2] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔