کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 144
آپ معہ بادشاہ اور لشکر کے دن میں ایک دفعہ کھانا کھاتے تاکہ یہ سات سال قحط کے بآسانی گزر جائیں جب یہ خبر رفتہ رفتہ ملک شام پہنچی کہ مصر میں غلہ فروخت ہوتا ہے تو یوسف کے دسوں سوتیلے بھائی باپ کے حکم سے مصر کی طرف چلے اور کچھ مال نقدی اپنے ساتھ لیتے آئے کہ قیمت میں غلہ کے دیں گے جب یہ لوگ مصر میں پہنچے تو لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنوئیں سے نکلنے کے بعد مصر کے قافلہ کے لوگوں کے ہاتھ فروخت کیا تھا تو وہ بہت خورد سال تھے اور اب تیس سے زائد عمر تجاوز کرگئی تھی علاوہ اس کے ہیئت بدلی ہوئی تھی عزیز مصر کی جگہ زرق برق ہو کر تاج وزارت سر پر رکھے ہوئے تھے اور خود ان کے بھائیوں کو یہ گمان تھا کہ خبر نہیں یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے یا مرگیا اور حکم قضا و قدر سے بالکل لا علم تھے یہ کیا جانتے تھے کہ ہمارا بھائی کچھ ایسا نصیبہ کا زبردست ہے کہ فرمانروا بن جائے گا۔ یہ وجوہات درمیان میں حائل تھیں جس کے سبب سے یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کو یوسف کے شناخت کرنے میں دشواری ہوئی یوسف نے ان لوگوں کو اچھی طرح اتروایا اور اچھی جگہ ان کو رہنے کو دی اور ان کی مہمانی کا اچھا سامان کیا جب ان سے باتیں ہوئیں تو یہ لوگ زبان عبرانی میں گفتگو کرنے لگے۔ یوسف (علیہ السلام) نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون ہو کہاں کے رہنے والے ہو تمہارا حسب ونسب کیا ہے یہ پوچھنا ان کا جان بوجھ کر تھا کیوں کہ یوسف (علیہ السلام) ان کو اول ہی نظر میں پہچان چکے تھے بہر حال انہوں نے جواب دیا کہ ہم ملک شام کے رہنے والے ہیں ہمارے ہاں بھی قحط پڑا ہے غلہ خریدنے کو یہاں آئے ہیں یوسف (علیہ السلام) نے کہا شاید تم جاسوس ہو خبر لگانے کو آئے ہو انہوں نے کہا کہ معاذ اللہ ہم دسوں آدمی ایک باپ کے بیٹے ہیں ہمارا باپ ایک نہایت ہی بزرگ، ایک صاحب کرامات، خدا کا رسول ہے۔ ان کا نام یعقوب (علیہ السلام) ہے۔ یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا تم کتنے بھائی ہو کہا کہ ہم بارہ بھائی تھے۔ ایک بھائی تھا وہ جنگل میں ایک روز گیا وہاں خبر نہیں کس طرح ہلاک ہوگیا بھیڑیا کھا گیا کیا ہوا کچھ پتہ نہیں ۔ یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا یہاں اب کتنے آئے ہو کہا کہ دس بھائی فرمایا کہ گیارہواں کہاں ہے جواب دیا کہ وہ باپ کے پاس ہے وہ سب سے چھوٹا ہے جو ہمارا بھائی گم ہوگیا