کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 143
اس لیے اونٹ کو ” رَاحِلَۃٌ“ کہہ لیتے ہیں ۔ ” بِضَاعَۃٌ“ وہ رقم یا سامان جس کے ساتھ کوئی چیز خریدی جائے، [1] ان آیات میں استعمال ہونے والےبعض الفاظ وتراکیب کی بلاغی معنویت: "فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ بين عرف وأنكر: طباق." [2] "فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ "عرفان اور انکار کے ما بین طباق ہے۔ تفسیروبیان آیات از 58تا62) ﴿وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ . . . لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ قحط کے مارے ہوئے برادرانِ یوسف حصول غلہ کے لیے یوسف کے سامنے پیش مصر اور گردونواح کے علاقوں کا قحط کی زد میں آنا یوسف علیہ السلام کی حسن تدبیر " جب یوسف (علیہ السلام) عزیز مصر کی جگہ بادشاہ کے وزیر ہوگئے اور سارا انتظام ملکی و مالی ان کے قبضہ و تصرف میں آگیا تو سات سال ارزانی میں انہوں نے بہت اہتمام کیا اور غلوں کو نہایت احتیاط سے جمع کیا یہاں تک کہ ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا۔" [3] قحط کی زد میں آکر برادرانِ یوسف حصول اناج کےلیے یوسف علیہ السلام کے پاس مصر میں "جب ارزانی کا زمانہ گزر گیا اور قحط شروع ہونے لگا تو دور دور کے لوگ غلہ خریدنے کو مصر میں آنے جانے لگے۔ یوسف (علیہ السلام) کسی شخص کو ایک اونٹ کے بوجھ سے زیادہ غلہ نہیں دیتے تھے اور [1] حافظ عبد السلام:تفسیر القرآن العظیم۔ [2] ڈاکٹر وہہ بن مصطفى الزحيلي: التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،جلد13،صفحہ14۔ [3] حافظ محمد سید احمد حسن :احسن التفاسیر،جلد3،صفحہ176۔