کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 141
ہوسکتا ہے کہ بادشاہ نے از خود ہی زمام حکومت ان کے سپرد کردی ہو۔ ایک مشرک بادشاہ اور ایک نبی کا اتنا قرب ممکن ہی نہیں ، اگر بادشاہ کو کافر فرض کیا جائے تو ممکن ہی نہیں کہ انسانوں میں سے اللہ کا سب سے بڑا دشمن (کافر بادشاہ) اللہ کے اس وقت کے سب سے بڑے دوست (نبی) سے اتنی دلی محبت رکھ کر نباہ کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا ہے : ﴿ اِنَّ الْكٰفِرِيْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِيْنًا﴾ [ النساء : ١٠١ ] ” بیشک کافر لوگ ہمیشہ سے تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔ “ سورة کافرون پر نظر ڈال لیں اور سورة مجادلہ کی آخری آیت پر بھی۔ سورة ممتحنہ کی آیت (٤) میں یوسف (علیہ السلام) کے جد امجد ابراہیم (علیہ السلام) نے تو مسلم و کافر کے درمیان واضح ابدی بغض و عداوت کی صراحت فرما دی ہے۔ کافر بادشاہ اور نبی کے درمیان عداوت و محبت کا منظر دیکھنا ہو تو موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کو دیکھ لیں ، حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس گھر میں بیٹے کی حیثیت سے پرورش پائی تھی۔ بادشاہ تو دور کی بات ہے کافر سرداران قوم ایک لمحہ انبیاء اور مسلمانوں کو برداشت نہیں کرسکے اور نہ کرسکتے ہیں ۔ سوائے ایسے مسلمانوں کے جو ان کے ہر عمل بد پر ان کی مدد کریں ، یا کم از کم خاموش رہیں ۔ اللہ کے نبی یوسف (علیہ السلام) سے اس کی توقع وہی شخص کرسکتا ہے جو یوسف (علیہ السلام) کا خواتین مصر کے مطالبے کے مقابلے میں سال ہا سال کی قید گوارا کرنا اور بادشاہ کے بلانے کے باوجود تحقیق کے بغیر قید خانے سے نکلنے سے انکار نہ جانتا ہو۔ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۔ ۔ ۔ : لفظ ” يَتَبَوَّاُ “ سے یوسف (علیہ السلام) کو مصر میں حاصل ہونے والا اختیار و اقتدار سمجھنے کے لیے اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں جس میں ذکر ہے کہ جنتی جنت میں داخلے کے بعد کیا کہیں گے : ﴿وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ صَدَقَنَا وَعْدَهٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَـتَبَوَّاُ مِنَ الْجَــنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ﴾ [ الزمر : ٧٤ ] ” اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کیا اور ہمیں اس زمین کا وارث بنادیا کہ ہم (اس) جنت میں سے جہاں چاہیں جگہ بنالیں ۔ “ جنت جیسا اختیار نہ سہی مگر اس سے اس لفظ کی وسعت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی سے یوسف (علیہ السلام) کا نکاح ہوگیا تھا، مگر محدثین کے نزدیک یہ روایات قابل اعتبار نہیں ۔ "[1]
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی:تفسیر القرآن العظیم۔