کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 140
محنت رائگاں نہیں جانے دیتا۔ اللہ تعالیٰ جس سے محبت کرے تو ساری دنیا سے اس کی عزت کرواتا ہے، یہ اس کا طریقہ اور سنت ہے۔ درج ذیل حدیث میں اس مسئلے کو نہایت حسن و خوبی سے بیان کیا گیا ہے، سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو جبرئیل (علیہ السلام) کو بلا کر فرماتے ہیں ، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں ، لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، تب جبرئیل (علیہ السلام) اس سے محبت کرتے ہیں اور تمام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتے ہیں ، اس لیے تم لوگ بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کو زمین والوں میں مقبول بنادیا جاتا ہے۔ ( اسی طرح) اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بندے کو ناپسند فرماتے ہیں تو جبریل (علیہ السلام) کو بلاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں ، میں فلاں سے نفرت کرتا ہوں ، اس لیے تم بھی اس سے نفرت کرو تو جبرئیل (علیہ السلام) بھی اس سے نفرت کرتے ہیں ۔ پھر وہ آسمان والوں میں منادی کرتے ہیں کہ بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ فلاں بندے سے نفرت کرتے ہیں ، اس لیے تم بھی اس سے نفرت کرو، تو اہل آسمان اس سے نفرت کرنا شروع ہوجاتے ہیں ، پھر اس کو زمین والوں میں بھی ناپسندیدہ بنادیا جاتا ہے۔ “ [ مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب إذا أحب اللہ عبدًا۔۔ الخ : ٢٦٣٧ ]" [1] "حضرت یوسف کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمکن عطا ہونے کا یہ دوسرامرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے میں آپ کو بدوی اور صحرائی ماحول سے اٹھا کر اس دور کے ایک نہایت متمدن ملک کی اعلیٰ ترین سطح کی سوسائٹی میں پہنچایا گیا جبکہ دوسرے مرحلے میں آپ کو اسی ملک کے ارباب اختیار و اقتدار کی صف میں ایک نہایت ممتاز مقام عطا کردیا گیا جس کے بعد آپ پورے اختیار کے ساتھ عزیز کے عہدے پر متمکن ہوگئے۔ وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِي الْاَرْضِ : اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو سلطنت مصر میں ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے اور وہ ایک کافر بادشاہ کے وزیر و ملازم نہیں تھے،
[1] ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیرابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔