کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 139
"اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا :﴿ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ﴾ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کبھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ﴿ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ﴾ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ ﴿ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ﴾ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6۔ 32) ﴿ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔" [1] تفسیروبیان﴿وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ ۔ ۔ ۔ وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ تک آیات کی تفسیر اللہ تعالیٰ محسنین(نیکی کرنے والوں ) کی محنت رائگاں نہیں جانے دیتا "اس طرح اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر کا مالک بنادیا، جس طرح چاہتے تھے اس میں تصرف کرتے تھے، جہاں چاہتے تھے جاتے تھے، بستی ہو یا شہر، ہر جگہ انھی کا حکم چلتا تھا۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے آخرت کا ثواب دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی کو آخرت کی کامیابی کے لیے اصل کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا کا جاہ و جلال اور عزت و شہرت سب عارضی ہے اور آخرت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں ۔ ﴿ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاءُ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِـنِيْنَ ﴾: آیت کے اس حصے میں اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے بےانتہا محبت، عدل اور اس کے کرم کی ایک جھلک نظر آتی ہے، وہ محسنین کی
[1] أبو القاسم الحسين بن محمد المعروف بالراغب الأصفهانى (المتوفى: 502هـ): المفردات في غريب القرآن۔