کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 136
سوائے اس شخص کے جس نے اہلیت کی بنا پر اسے حاصل کیا اور پھر اس کے حقوق پوری طرح ادا کیے۔ “ [ مسلم، کتاب الإمارۃ، باب کر اہۃ الإمارۃ بغیر ضرورۃ : ١٨٢٥ ] سیدنا عبد الرحمن بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : ” اے عبد الرحمن بن سمرہ ! کبھی کوئی امارت مت مانگو، کیونکہ خود سوال کر کے عہدۂ امارت حاصل کرو گے تو اس میں اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں ہوگی ( کہ جس کے ذریعے تم لغزشوں اور خطاؤں سے محفوظ رہ سکو) اور اگر بغیر درخواست اور طلب کے تمہیں کوئی عہدہ مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و اعانت ہوگی ( جس کے باعث تم اس کے حقوق ادا کرسکو گے) ۔ “ [ مسلم، کتاب الأیمان، باب ندب من حلف یمینًا۔۔ الخ : ١٦٥٢ ]" [1] کیا اس وقت کا بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا؟ حضرت مجاہد (رح) کی روایت یہ ہے کہ بادشاہ ان کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہوگیا تھا، لہذا حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اس ذمہ داری کو قبول کرنا پورے ملک پر اللہ تعالیٰ کا قانون انصاف نافذ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔ "[2] آیات از 56تا57﴿وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ ۔ ۔ ۔ وَكَانُوا يَتَّقُونَ﴾ ﴿وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (56) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴾
[1] ابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیرابونعمان سیف اللہ خالد :تفسیردعوة القرآن۔۔ [2] مفتی تقی عثمانی : تفسیر آسان قرآن۔