کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 135
جبکہ ملک کو ایک بڑی ہولناک قحط سالی سے واسطہ پڑنے والا تھا۔ اس لیے آپ نے خدمت خلق اور اصلاح احوال کے جذبے کے تحت اس کو اختیار کیا۔ (٥٥) ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو وزارت خزانہ کا مطالبہ : ۔۔۔۔ یہاں ” ارض “ سے صرف مصر کا مالک مراد ہے بادشاہ نے تعبیر خواب سن کر تدبیر پوچھی کہ کیا انتظام کرنا چاہیے ؟ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور طریقہ کار بھی بتایا ، اور مطالبہ کیا کہ میں بیت المال کو بےجا مصارف سے بچاؤں گا اس لئے مجھے ملکی خزانے کا نگران بنادیا جائے ، حضرات مفسرین (رح) ومحدثین (رح) اور فقہاء کرام (رح) فرماتے ہیں کہ جب کوئی کسی کام کی لیاقت اپنے اندر رکھتا ہو اور سمجھے کی دوسرا آدمی مجھے اچھا انتظام نہیں کرسکے گا تو اس عہدے کی درخواست کرنا جائز ہے ، مگر مخلوق خدا کو نفع پہنچانا مقصود ہو خود غرضی نہ ہو ۔ اور حدیث پاک سے جو امارت خود طلب کرنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد جو محض نفس پر وی اور جان پسندی کی بنا پر ہو ۔ تفسیر بحرمحیط میں ہے ک جہاں یہ معلوم ہو کہ علماء صلحاء اگر یہ عہدہ قبول نہیں کریں گے تو لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے ، اور انصاف نہیں ہو سکے گا وہاں ایسا عہدہ قبول کرلینا جائز ہے ، بلکہ ثواب ہے بشرطیکہ اس عہدہ کے قبول کرنے میں خود خلاف شرع امور کے ارتکاب پر مجبوری پیش نہ آئے ۔ (بحرمحیط : ص : ٣١٩: ج : ٥)"[1] امارت کے لیے اہلیت شرط ہے "یہاں یہ مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ یوسف (علیہ السلام) خود عہدہ نہیں مانگ رہے، بلکہ شاہ مصر کے فیصلہ کرلینے کے بعد محض تجویز پیش کر رہے ہیں ۔ عہدے تو اسلام میں ہوتے ہی نہیں ، بلکہ ذمہ داری ہوتی ہے اور جو خود ذمہ داری مانگے اسے نہیں ملتی، بلکہ اس جو اہل ہو اس کے سپرد کی جاتی ہے۔ اور تو یہ ذمہ داریاں بہت بھاری اور ڈرا دینے والی ہیں ، جیسا کہ سیدنا ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے ابو ذر ! تم کمزور ہو اور امارت ایک امانت ہے اور بیشک قیامت کے روز یہ ( بہت سے لوگوں کے لیے) باعث رسوائی اور ندامت ہوگی،
[1] مولانا عبد القیوم :تفسیر معارف القرآن۔