کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 134
لیے مخصوص کرلیتے ہیں ۔ اور گوہر شناسی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایسے گوہر کو فورا اپنایا جائے۔ اور جوہر تابدار کا حق بھی یہی ہے کہ وہ تاج شاہی میں سجے۔ اس لیے بادشاہ کو جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی شخصیت اور آپ کے کمالات کے بارے میں علم ہوا تو اس نے فورا آپ کے لیے بلاوا بھیجا۔ بہرکیف حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ابتلاء و آزمائش کا دوراب ختم ہوگیا اور اب عنایات ونوازشات کا زمانہ شروع ہوتا ہے۔ بادشاہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ان گوناگوں کمالات کی بناء پر آپ کا گرویدہ ہوگیا۔ اس لیے اس نے کہا کہ ان کو میرے پاس لے آؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے چن کر اپنا خاص معتمد بنالوں ۔ اور شخصی حکومتوں میں جہاں سارے اختیارات کا مرکز بادشاہ کی ذات ہوتی ہے وہاں پر بادشاہ کا کسی کو اپنا معتمدخاص بنالینا اور وہ بھی اس عقیدت اور گرویدگی کے ساتھ جو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں اس بادشاہ کی دل میں پیدا ہوگئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا بادشاہ نے اپنے اختیار اور اقتدار کی پوری باگ ڈور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حوالے کردینے کا اعلان کردیا۔ والحمد للہ جل وعلا۔ ﴿ قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴾ اصلاح نظام اور خدمت خلق کے لیے منصب کا مطالبہ درست ہے "کہ آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کردیں ۔ تاکہ اس طرح مجھے نظام کار کی اصلاح اور خدمت خلق کا موقع مل سکے۔ سو یہ کوئی اپنی نوکری کا مطالبہ نہیں تھا جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنی شخصی منفعت کے لیے جھٹ کردیا ہو کہ نظام کفر میں ایک کل پرزے کی طرح کام کرنا تو نبی کی شان ہی نہیں ۔ بلکہ یہ مطالبہ دراصل اصلاح احوال اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت تھا۔ تاکہ اس طرح کار سلطنت میں شریک اور دخیل بن کر اور ضروری اختیارات حاصل کرکے آپ اس نظام کفر کی حتی المقدور اصلاح کرسکیں ۔ لوگوں کی صحیح راہنمائی اور خدمت کا فریضہ انجام دے سکیں تاکہ ان کی بگڑی اور اس طرح بن جائے۔ اور آپ نے ایسا کرکے دکھادیا۔ چناچہ اس کے بعدوہاں کی زندگی کے دھارے بدل دیئے گئے اور ملکی خزانوں پر مامور ہونے کی تخصیص آپ نے اس لیے کی کہ ملکی اصلاح و فساد اور بناؤبگاڑ اور عدل وانصاف کا قیام و اہتمام اور تعمیروترقی وغیرہ جملہ اہم امور مملکت کا مدارو انحصار بنیادی طور پر اور بڑی حد تک اسی شعبہ پر ہوتا ہے۔ خاص کر اس وقت اور ان حالات میں