کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 131
("لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ " میں امارة:مبالغہ کے صیغوں میں سے ہے۔ یہ فعال کے وزن پر ہے۔معاصی اور ہلاکت کے مقامات کے خلاف ، نفس کے اندر دفاعی صلاحیت کے لیے مبالغہ ہے۔) تفسیروبیان﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۔ ۔ ۔ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ آیت کی تفسیر اللہ کی رحمت کی بدولت ہی انسان برائی سے بچ سکتاہے "۔ ۔ ۔یہ بات بھی انہوں نے ہی کہی کہ باوجود اس بات کے کہ عورتوں نے میری پاکبازی کی گواہی دی اور دراصل میں راست باز بھی ہوں مگر پھر بھی میں اپنے آپ کو بالکل پاک و صاف نہیں سمجھتا کیوں کہ نفس ہر وقت انسان کو برائی کا حکم کرتا رہتا ہے۔ اور ہر گھڑی برائی کا راستہ دکھلاتا رہتا ہے مگر ہاں جس نفس پر خدا کی مہربانی ہو اور جس پر خدا رحم کرے وہ ان باتوں سے بچا رہتا ہے کیوں کہ خداوند جل جلالہ غفور و رحیم ہے۔ مسند امام احمد صحیح مسلم اور ابوداؤد میں زینب بنت ابی سلمہ (رض) سے روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ میرا پہلا نام برہ تھا جس کے معنے نیک پارسا کے ہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا وہ نام بدل کر زینب نام رکھا اور فرمایا کہ انسان کی پارسائی کا حال اللہ ہی کو خوب معلوم ہے۔ ١ ؎ اس لئے کسی انسان کو اپنی پارسائی کا دعویٰ زیبا نہیں ہے یوسف (علیہ السلام) نے پہلی بات کے بعد یہ دوسری بات جو کہی اس حدیث سے اس کا سبب اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے یوسف (علیہ السلام) کے اس قول کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے جس کسی کو شیطان اور نفس کے پھندے سے بچادے وہی بچ سکتا ہے ورنہ انسان کو پارسائی کا دعویٰ نہیں پہنچتا۔ گناہوں کے للچانے والے نفس کو امارہ اور گناہوں پر ملامت کرنے والے کو لوامہ اور گناہوں سے بچنے والے کو مطمنہ کہتے ہیں ۔ ١ ؎ مشکوٰۃ ص ٣٢۔ کتاب الامارۃ والقضائ۔" [1]
[1] حافظ محمد سید احمد حسن :احسن التفاسیر،جلد3،صفحہ173،174۔