کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 130
بادشاہ کے سامنے زنانِ مصر کا اعترافِ حق قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ ۔۔ : بادشاہ نے ان تمام خواتین کو طلب کرلیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران میں وہ معاملے کی پوری تحقیق کرچکا تھا اور یوسف کی بےگناہی اور عورتوں کے فریب سے آگاہ ہوچکا تھا، اس لیے اس نے یہ نہیں کہا کہ تمہارا قصور تھا یا یوسف کا، بلکہ ان سے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ جب تم نے یوسف (علیہ السلام) کو اس کے نفس سے پھسلایا تھا، تمہارے اس معاملے کی حقیقت کیا تھی ؟ یعنی آخر اس کا کیا جرم تھا جس کی وجہ سے اسے اتنی دیر قید خانے میں رکھا گیا ؟ وہ سب بیک زبان بولیں : ” اللہ کی پناہ ! ہم نے اس پر کوئی برائی معلوم نہیں کی۔ “ ہاتھ کاٹنے والیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کو کسی بھی قسم کی برائی سے پاک قرار دیا تو ہاتھ نہ کاٹنے والی عزیز مصر کی بیوی کو بھی بولنا پڑا، اس نے کہا، اب تو حق بالکل ظاہر ہوگیا، میں نے ہی اسے اس کے نفس سے پھسلایا تھا اور یقیناً وہ سچوں سے ہے۔ آیت 53﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۔ ۔ ۔ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ ﴿ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾ |53| 12 میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، یقیناً میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے ان آیات میں استعمال ہونے والےبعض الفاظ وتراکیب کی بلاغی معنویت: لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ أمّارة: من صيغ المبالغة، على وزن «فعّال» مبالغة في وصف النّفس بالاندفاع نحو المعاصي والمهالك. [1]
[1] ڈاکٹر وہہ بن مصطفى الزحيلي: التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،جلد13،صفحہ5۔