کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 129
نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وه سچوں میں سے ہے۔ |52| 12 (یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی اور یہ بھی کہ اللہ دغابازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا۔ تفسیروبیان (آیات از 50تا52)﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي ۔ ۔ ۔ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ﴾ تک آیات کی تفسیر وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِيْ بِهٖ : یعنی جب ساقی نے جا کر تعبیر بتائی تو بادشاہ نے کہا : ” اسے میرے پاس لاؤ۔ “ اس سے علم کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ حسن بےمثال قید اور مصیبت کا باعث بنا اور علم رہائی کا۔ دنیا میں جب یہ حال ہے تو آخرت میں علم نافع کی برکتوں کا آپ خود اندازہ فرما لیں ۔ سیدنا یوسف کا بذریعہ شاہی قاصد تحقیقات کا مطالبہ قَالَ ارْجِعْ اِلٰي رَبِّكَ ۔۔ : یوسف (علیہ السلام) نے قید سے نکل کر قاصد کے ساتھ جانے کے بجائے مطالبہ کیا کہ واپس جاؤ اور بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ تھا جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، یقیناً میرا رب ان کے فریب کو خوب جاننے والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یوسف (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ شاید بادشاہ کو میرے قید میں بھیجے جانے یا عورتوں کے فریب کے معاملے کا علم ہی نہ ہو، دوسرے وزیروں نے ازخود ہی یہ سب کچھ کیا ہو، یا اگر علم ہو تو جس طرح بدنام کرکے قید کیا گیا اسی کے مطابق علم ہو۔ اسی طرح عام لوگوں میں بھی ممکن ہے کچھ لوگ ان کا قصور سمجھتے ہوں ، اس لیے انھوں نے جب تک تحقیق کے ساتھ تہمت سے ہر طرح صفائی نہ ہو، قید سے نکلنے سے انکار کردیا۔ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے صبر کی تعریف فرمائی، چناچہ ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِيْ لَأَجَبْتُہٗ ) [ بخاری، التعبیر، باب رؤیا أہل السجون والفساد والشرک : ٦٩٩٢ ] ” اگر میں اتنی مدت قید خانے میں رہتا جتنی مدت یوسف (علیہ السلام) رہے، پھر میرے پاس بلانے والا آتا تو میں ضرور اس کی دعوت قبول کرتا۔ “