کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 128
"یہ آیت کریمہ مصالح شرعیہ یعنی حفظ الادیان، حفظ النفوس، حفظ العقول، حفظ الانساب اور حفظ الاموال کے حوالے سے اصل وضابطہ ہے پس ہر وہ چیز جو ان امور میں سے کسی امر کے حصول کی ضامن ہو تو وہ مصلحت ہے اور جوان میں سے کسی چیز کو ختم کرنے والی کی ہو وہ مفسدہ ہے اس کو دور کرنا مصلحت ہوگی۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ شرائع کا مقصود لوگوں کو ان کئے دینوی مصالح کی طرف رہنمائی کرنا ہے تاکہ ان کے ذریعے ان پر اللہ تعالیٰ کی معرفت و عبادت حاصل ہوجائے جو اخروی سعادت تک پہنچانے والی ہیں ۔ اس کی رعایت اللہ تعالیٰ کا وہ فضل و رحمت ہے جو اس نے اپنے بندوں پر فرمایا جو نہ تو اس پر واجب ہے اور نہ ہی کسی کو اس پر واجب ہے اور نہ ہی کسی کو اس کا استحقاق ہے یہ تمام اہل سنت کے جملہ محققین کا مذہب ہے اس کی تفصیلات اصول فقہ میں ہیں ۔ " [1] آیات از 50تا52﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي ۔ ۔ ۔ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ﴾ ﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ (50) قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (51) ذَلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ ﴾ |50| 12 اور بادشاه نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ، جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاه کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے، تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے۔ |51| 12 بادشاه نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کر کے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں ، انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی۔ میں
[1] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔