کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 127
کے بعد بارشوں کے رک جانے کے باعث اور دریائے نیل کے خشک ہوجانے کی وجہ سے خشک سالی کا آغاز ہوجائے گا۔ اور یہ خشک سالی سات سال تک چلے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک میں قحط پڑجائے گا۔ پھر ایک سال آئے گا جب خشک سالی ختم ہوگی، خوب بارشیں برسیں گی اور بارشوں کے نتیجہ میں تیل دینے والے بیج اور رس دینے والے پھل اور میوے خوب پیدا ہوں گے اور مویشی بھی اچھا چارہ ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگیں گے۔ "ثُمَّ يَاْتِيْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِكَ عَامٌ ۔۔ :” يُغَاثُ “ ” غَیْثٌ“ سے بھی ہوسکتا ہے اور ” غَوْثٌ“ سے بھی۔ ” غَیْثٌ“ سے ہو تو بارش برسائے جائیں گے اور ” غَوْثٌ“ سے ہو تو مدد کیے جائیں گے۔ ” يَعْصِرُوْنَ “ ” نچوڑیں گے “ یعنی اس سال وہ پھل جن سے رس نکلتا ہے، مثلاً انگور، لیموں وغیرہ اور وہ بیج جن سے تیل نکلتا ہے، مثلاً زیتون، سرسوں وغیرہ کثرت سے پیدا ہوں گے اور جانور بھی اچھا چارا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دیں گے۔ اس بنا پر بعض نے ” يَعْصِرُوْنَ “ کے معنی ” یَحْلِبُوْنَ “ (دودھ دو ہیں گے) کیے ہیں ۔ یہ بات کہ قحط کے سات سالوں کے بعد ایک خوش حالی کا سال آئے گا، خواب سے زائد بتائی، یا تو وحی الٰہی کے ذریعے سے، یا خشک سالوں کی گنتی سات ہونے سے استدلال فرمایا کہ وہ سات تبھی رہتے ہیں جب ان کے بعد کم از کم ایک خوش حالی کا سال ہو اور اس سے بھی کہ اللہ کی رحمت کا تقاضا بھی شدت کے بعد آسانی کا ہے۔ کافر کا خواب بھی سچا ہوسکتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ کبھی کافر کا خواب بھی سچا ہوتا ہے، اگر بادشاہ کا کافر ہونا ثابت ہو۔ اس سے پہلے دونوں قیدی جو مشرک تھے، ان کے خواب بھی سچے نکلے۔ امام بخاری (رح) نے بھی ” کِتَاب التَّعْبِیْرِ “ میں اس سے یہ استدلال فرمایا ہے : ” بَابُ رُؤْیَا أَہْلِ السُّجُوْنِ وَالْفَسَادِ وَالشِّرْکِ ” قیدیوں اور اہل شرک و فساد کے خواب کا بیان۔ " [1] فقہی احکام
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی: تفسیر القرآن العظیم۔