کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 125
سیدنایوسف علیہ السلام کی نبوی فراست " یغاث “ غیث “ سے مشتق ہے ” غیث “ کا معنی بارش ہوگی یا ” غوث “ سے مشتق ہے ” غوث “ فریاد رسی یعنی لوگوں کی وایلا اور فریاد قبول کی جائے گی ۔ ” یعصرون ۔‘‘ وہ نچوڑیں گے یعنی انگورزیتون (طرح طرح کے پھل) اور تل (سرسوں اور دوسرے روغن دانہ سے) نچوڑیں گے مطلب یہ ہے کہ سرسبز پیداوار اور آسائش کا سال ہوگا ، قاضی بیضاوی (رح) نے لکھا ہے شاید آپ کو پیداوار اور ارزانی کا سال آنے کی اطلاع وحی سے ہوگئی ہو یا اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا ہو کہ اللہ کا دستور اور ضابطہ یہی ہے کہ تنگی کے بعد فراخی عطا فرماتا ہے اس لئے قحط کے بعد پیداوار کا سال ضرور آئے گا۔ (مظہری : ص : ١٦٨: ج : ٥) " [1] سیدنا یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کاشت کاری وزراعت کا ایسا قاعدہ بیان فرمایا جو کامل کاشت کا ر کو ہی معلوم ہوتا ہے کہ بالی یا بھوسے میں گندم کی حفاظت ہے۔ تعبیر سے تو صرف ایک عقدہ حل ہوا کہ بادشاہ نے جو خواب دیکھا ہے اس کا مفہوم کیا ہے۔ لیکن اس کے بعد جو اصل سوال ہے وہ یہ ہے کہ خشک سالی میں جب ملک قحط کا شکار ہوجائے گا تو لوگوں کی غذائی ضروریات کہاں سے فراہم کی جائیں گی۔ قحط تو چند دنوں کا بھی بستیاں اجاڑ دیتا ہے، سات سال کا قحط تو ملک بھر کی آبادی کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی اگر آج سے فکر نہ کی گئی تو پھر اس وقت کیا ہوگا۔ چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تعبیر کے ساتھ ہی پیدا ہونے والے مسائل کا حل بھی بتایا۔ آپ ( علیہ السلام) نے فرمایا پہلے سات سالوں میں جتنا غلہ پیدا ہو اس کو محفوظ کرنے کے انتظامات کیے جائیں ، صرف اتنے خوشوں سے غلہ نکالا جائے جتنی ملک کے لیے ضرورت ہے اور راشن بندی کے ذریعے نہایت احتیاط سے ملک کے ایک ایک فرد کو ضرورت کے مطابق غلہ دیا جائے۔ باقی گندم کی پوری فصل خوشوں میں چھوڑ دی جائے۔ دانہ جب خوشے اور بالوں سے الگ ہوتا ہے تو موسم کے بعض دفعہ اثرات اسے خراب بھی کرسکتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ بالوں کے اندر رہتا ہے تو نہ اس کو سُرسُری لگتی ہے اور نہ اسے کیڑا لگتا ہے۔ اس لیے باقی انتظامات کے ساتھ یہ تجویز دی کہ غلے کو خوشوں سے الگ نہ کیا جائے بجز اس مقدار کے جو غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لازمی ہے۔ اور یہ بھی
[1] مولانا عبد القیوم القاسمی: معارف القرآن۔