کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 124
والوں نے ان خوابوں کو ایسے ہی خواب قرار دیا۔ اس لیے انھوں نے اس کی تعبیر بتانے سے معذرت کی۔" [1] شاہی ساقی کی پیشکش " اَضْغَاثُ ضغث کی جمع ہے۔ پھولوں کے گلدستے یا گھاس پھوس اور خس و خاشاک کے گٹھے کو کہتے ہیں ۔ اسی طرح یہ لفظ بےحقیقت باتوں اور خبروں کے مجموعے پر بھی بولا جاتا ہے۔ پھر اسی سے اَضْغَاثُ اَحْلاَمٍ کی ترکیب پیدا ہوگئی اور یہ لفظ ان افکارِ پریشاں پر بولا جانے لگا جو انسان نیند کی حالت میں دیکھتا ہے اور جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ملک بھر سے آئے ہوئے دانشوروں اور ماہرین تعبیر نے جب اس طرح اپنی بےبسی اور بیخبر ی کا اظہار کیا تو بادشاہ کی پریشانی میں اور اضافہ ہوگیا۔ اس موقع پر بادشاہ کی مجلسِ عیش و طرب کے نگران کو اچانک حضرت یوسف (علیہ السلام) یاد آئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے تخلیہ میں بادشاہ کے سامنے صورتحال کی وضاحت کے لیے اپنی سرگزشت بیان کی اور تفصیل سے بتایا کہ میں نے جیل میں خواب دیکھا تھا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے میرے خواب کی تعبیر بتائی تھی اور میں اسی تعبیر کے مطابق آج آپ کی خدمت بجالارہا ہوں ۔ اور پھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں یقینا اس نے وہ سب عقیدت مندانہ باتیں کہی ہوں گی جو وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے اپنے دل میں رکھتا تھا۔ اور آپ ( علیہ السلام) کی پاکیزہ زندگی اور آپ ( علیہ السلام) کی دانائی اور ہوش مندی کے بارے میں ایک ایک بات بادشاہ کے گوش گزار کی ہوگی۔ اور اس کی طرح اسے امید دلائی کہ آپ ( علیہ السلام) پریشان نہ ہوں مجھے آپ جیل خانہ جانے کی اجازت دیجیے۔ میں یوسف ( علیہ السلام) سے مل کر اس خواب کی تعبیر معلوم کرتا ہوں ۔ وہ یقینا اس خواب کی تعبیر جانتے ہوں گے۔" [2]
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔ [2] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔