کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 122
قصوروار ہوگا اس لیے اس کو جیل بھیجا گیا۔ اور جو لوگ حقیقت کو جانتے ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ ان واقعات کو بھول جائیں گے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اجنبی دیس میں تھے جہاں آپ ( علیہ السلام) کا کوئی قرابت دار نہ تھا۔ غلامی کا داغ آپ ( علیہ السلام) پر لگ چکا تھا۔ شہر کے بڑے لوگوں نے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا تھا ایسی صورتحال میں جیل میں آپ ( علیہ السلام) کا پرسان حال کون ہوتا اور کیونکر قانون آپ کی مدد کو پہنچتا۔ ایک رہا ہونے والا شخص جو آپ کا حددرجہ عقیدت مند تھا اس سے ایک گونہ امید پیدا ہوئی تھی لیکن وہ بھی جیل سے نکلتے ہی اپنے معمولات میں ایسا کھویا کہ اسے کبھی آپ ( علیہ السلام) کی یاد نہ آئی۔ ان حالات میں بظاہر اس کا کوئی امکان نہ تھا کہ آپ ( علیہ السلام) کبھی بھی جیل سے نکل سکیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں وہ جب کسی چیز کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس کے لیے اسباب بھی خود ہی فراہم کردیتا ہے۔ انہی اسباب میں بادشاہ کے خواب کو شمار کرنا چاہیے۔"[1] "جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی آزادی قریب آئی تو بادشاہ نے خواب دیکھا۔ جبریل امین نازل ہوئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو سلام کیا اور آزادی کی خوشخبری سنائی اور کہا : اللہ تعالیٰ تجھے قید سے نکالنے والا ہے اور زمین میں تجھے اقتدار دینے والا ہے، بادشاہ کو اور جابر لوگوں کو تیرا مطیع وفرماپردار بنائے گا اور تجھے تیرے بھائیوں پر کلمہ عطا فرمائے گا اور یہ اس خواب کی وجہ سے ہے جو بادشاہ نے دیکھا اور وہ یہ ہے اور اس کی تاویل ایسی، ایسی ہے پس آپ قید میں اس سے زیادہ نہیں رہے جتنا کہ بادشاہ نے خواب دیکھا تھا حتی کہ باہر آگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے پہلے خواب کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لیے آزمائش اور سختی بنایا اور دوسری مرتبہ اسی کو خوشخبری اور رحمت بنایا۔[2] [1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی: تفسیر روح القرآن۔ [2] القرطبی،ابو عبد اللّٰه ،محمد بن احمد بن ابی بكر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدين (المتوفى: 671هـ): الجامع لأحكام القرآن الشهيربتفسير القرطبی۔