کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 121
("إِنِّي أَرى سَبْعَ بَقَراتٍ" میں مضارع کا صیغہ ،گزری ہوئی حکایت کا حال و موجود واضح کرنے کے لیے، استعمال کیاہے۔ " سِمانٍ..وعِجافٌ وخُضْرٍ.. ويابِساتٍ"کےمابین طباق کی صنعت استعمال ہوئی ہے۔ " أَضْغاثُ أَحْلامٍ "(پراگندہ خوابوں )کو حشیش کے ایسے مجموعہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس میں کئی طرح کی اشیاء یعنی پسندیدہ اور نا پسند خوشی دینے والی اور نا خوش کرنے والی اشیاءپائی جاتی ہیں ۔ ۔ ۔) تفسیروبیان(آیات از 43تا49)﴿وَقَالَ الْمَلِكُ ۔ ۔ ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ﴾ تک آیات کی تفسیر سیدنایوسف علیہ السلام کا کمال اخلاق حضرت یوسف (علیہ السلام) کا کمال اخلاق یہاں پر بھی ملاحظہ ہو کہ نہ تو آپ نے اس شخص سے کوئی گلہ شکوہ کیا کہ تم کو اتنا عرصہ اپنے مالک سے میرے بارے میں کلمہ خیرکہنے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ اور اب مطلب پڑنے پر فورا میرے پاس پہنچ گئے ہو۔ اور نہ ہی ایسی کوئی شرط رکھی کہ پہلے مجھے جیل سے رہاکرو۔ پھر میں اس کی تعبیر بتلاؤنگا وغیرہ وغیرہ۔ " اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے " حضرت یوسف (علیہ السلام) تقریباً دس سال تک جیل میں رہے اور وقت کے اندھے قانون نے کبھی پلٹ کر آپ ( علیہ السلام) کی طرف نہ دیکھا۔ آپ ( علیہ السلام) چونکہ عزیز مصر اور بعض دیگر معززین شہر کی سازش کا شکار ہوئے تھے جنھوں نے اپنی بیگمات کو قابو رکھنے کے لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قربانی دے ڈالی اور آپ ( علیہ السلام) کو پس دیوار زنداں بھیج کر بظاہر اس بات کا انتظام کرلیا کہ ہماری بیگمات کی بےراہ روی نے ہمارے خاندانوں پر جو بدنامی کے داغ لگائے ہیں یوسف ( علیہ السلام) کے منظر سے ہٹ جانے سے آہستہ آہستہ مٹ جائیں گے۔ جب لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ یوسف کو جیل میں بھیج دیا گیا ہے تو عام لوگ اس سے یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ وہ یقینا