کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 118
ہے۔ (ابن کثیر، روح المعانی) موضح میں ہے : ” ظَنَّ “ فرمایا، معلوم ہوا کہ تعبیر خواب یقین نہیں اٹکل ہے، مگر پیغمبر اٹکل کرے تو بیشک ہے، یعنی اٹکل نہیں ہے۔"[1] اسباب جو اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں انہیں اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں "وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّهٗ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ قید خانے میں رہنا جو بقول بعض زندوں کا قبرستان ہے، کس قدر تکلیف دہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جیسے صابر شخص نے اس آدمی سے کہا جس کے متعلق انھوں نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہونے والا ہے کہ اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا کہ کس طرح ایک شخص بلاجرم قید میں بند ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت سے نکلنے کے لیے دنیا کے جو اسباب اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں انہیں اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ، جیسا کہ :﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ﴾ [ المائدۃ : ٢ ] (نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو) سے ظاہر ہے اور جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : ﴿ مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ﴾[ آل عمران : ٥٢ ] ” اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں ؟ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف سے واپسی پر مطعم بن عدی کی طرف پیغام بھیجا، پھر اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے، بلکہ مسلمان کو دنیا کا ہر جائز سبب اختیار کرنا چاہیے، فرمایا : ﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ ﴾ [ الأنفال : ٦٠ ] یعنی ان کفار کے لیے جس قدر تمہاری استطاعت ہے تیاری رکھو، البتہ بھروسا اس کے بعد بھی اللہ ہی پر ہوگا۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے 3. شیطان نے اس ساقی کو اپنے مالک یعنی بادشاہ کے پاس یہ ذکر کرنا بھلا دیا، سو یوسف (علیہ السلام) کئی سال قید میں رہے۔ شیطان کی آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد سے دشمنی کا تو قرآن شاہد ہے : ﴿ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ﴾ [ البقرۃ : ١٦٨ ] ” بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “ اور قرآن نے صراحت کی ہے کہ ساقی کو بھلانا شیطان کا کام تھا، اس کے باوجود بعض اہل علم نے ساقی کو بادشاہ کے پاس اپنا
[1] عبد السلام بھٹوی:تفسیر القرآن الکریم۔