کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 117
دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا۔ |42| 12 اور جس کی نسبت یوسف کا گمان تھا کہ ان دونوں میں سے یہ چھوٹ جائے گا اس سے کہا کہ اپنے بادشاه سے میرا ذکر بھی کر دینا، پھر اسے شیطان نے اپنے بادشاه سے ذکر کرنا بھلا دیا اور یوسف نے کئی سال قیدخانے میں ہی کاٹے تفسیر وبیان آیات از 41تا42)﴿ يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ۔ ۔ ۔ بِضْعَ سِنِينَ﴾ تک آیات کی تفسیر سیدنا یوسف علیہ السلام کی گفتگو میں معنی خیز ترتیب پائی جاتی ہےچنانچہ ڈاکٹر ویبہ الزہیلی کہتے ہیں : "بَعْدَ أَنْ قَرَّرَ يُوْسًفَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَسْأَلَةَ التَّوْحِيْدِ وَعِبَادَةِ اللّٰهِ وَالنُّبُوَّةِ، عَادَ إِلَى الْإِجَابَةِ عَنِ السُّؤَالِ، وَتَعْبِيْرِ الرُّؤْيَا." [1] (توحید،اللہ تعالی کی عبادت اور نبوت کے مسائل کو ثابت کرنے کے بعدسیدنا یوسف علیہ السلام سوال کے جواب اور خواب کی تعبیر کی طرف لوٹ کر ان کا جواب دیتے ہیں ۔) تعبیر بیان کرتے وقت یوسف (علیہ السلام) کا حسین انداز " يٰصَاحِبَيِ السِّجْنِ ۔۔ : تعبیر بیان کرتے وقت یوسف (علیہ السلام) کے حسن ادا کو ملاحظہ فرمائیں ، ایک تو دونوں میں سے ایک کو متعین کرکے نہیں فرمایا کہ تیرے خواب کا یہ نتیجہ ہے اور تیرے خواب کا یہ، حالانکہ جواب سے ظاہر تھا کہ ساقی نے عہدے پر بحال ہونا ہے اور دوسرے نے سولی چڑھنا ہے، بلکہ فرمایا تم میں سے ایک کی تعبیر یہ ہے اور ایک کی یہ۔ پھر اس بات کو بھی سامنے رکھیے کہ پہلے وہ تعبیر بتائی جو خوش خبری والی تھی، دوسری بعد میں بتائی۔ مقصد یہ تھا کہ دل شکنی میں جتنی بھی دیر ہو سکے کی جائے اور خوشی کی خبر جتنی جلد ہو سکے پہنچائی جائے۔ قُضِيَ الْاَمْرُ الَّذِيْ فِيْهِ تَسْتَفْتِيٰنِ : یعنی یہ فیصلہ ہوچکا جو اب ٹل نہیں سکتا ہے۔ یہاں لفظ ” قُضِيَ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلی آیت میں جو لفظ ” ظَنَّ“ آ رہا ہے وہ یہاں یقین کے معنی میں ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ خواب کی تعبیر اجتہادی ظن تھا، لہٰذا یہ ظن اصلی معنی میں
[1] ڈاکٹر وہہ بن مصطفى الزحيلي: التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،جلد12،صفحہ270۔