کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 116
ہو:و ھو القاھر فوق عبادہ (الانعام) وہ اپنے بندوں پر غالب ہے۔ وہ خلاق اور مالک ہے ، وہ زبردست ہے۔ اس کے فیصلے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ وہ سب پر غالب ہے …… اور اس پر کوئی غالب نہیں ” للَّہ الامر جمیعاً معاملات سارے کے سارے اس کے حکم کے تابع ہیں ۔ ”الا ان القوة للَّہ جمیعاً ساری طاقت اور اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے۔ان الحکم الا للَّہ حکم بھی صرف اسی کا چلتاہے۔اسی لئے یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ چھوٹے چھوٹے متفرق معبود اچھے ہیں یا اللہ واحد جو سب پر غالب ہے۔ "مصر کے لوگوں کا دین اکثر زمانوں میں شرک یعنی متعدد معبودوں کی عبادت ہی رہا ہے، جیسا کہ تاریخ سے اور مصر کے آثار قدیمہ سے ظاہر ہوتا ہے اور اگر وہ بقول شخصے ایک رب کو مانتے بھی تھے تو دوسری تمام مشرک اقوام کی طرح اس کے تحت مختلف کاموں کا اختیار رکھنے والے کئی ارباب کی عبادت بھی کرتے تھے، کیونکہ ان کے ذہن اس شاہی نظام اور اس کے تحت جاگیر داری نظام سے آگے نہیں سوچ سکتے تھے جو ان پر مسلط تھا، جیسا کہ یونانیوں کے ہاں ہر کام کی الگ دیوی تھی۔ عراق والے بادشاہ کے ساتھ ساتھ سورج، چاند، ستاروں اور بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے، جن سے ابراہیم (علیہ السلام) کو سابقہ پڑا، اس لیے یوسف (علیہ السلام) نے سب سے پہلے قید کے ساتھیوں کی عقل کو جھنجوڑتے ہوئے یہی سوال کیا کہ بتاؤ کہ یہ الگ الگ رب بہتر ہیں یا ایک اللہ جو اکیلا ہے اور سب پر غالب اور زبردست ہے، کوئی اس کے آگے دم نہیں مار سکتا، نہ کوئی اس کی مرضی کے خلاف کچھ کرسکتا ہے ؟" حافظ عبد السلام بھٹوی: آیات از 41تا42﴿ يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ۔ ۔ ۔ بِضْعَ سِنِينَ﴾ ﴿ يَاصَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ (41) وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ ﴾ |41| 12اے میرے قیدخانے کے رفیقو! تم دونوں میں سے ایک تو اپنے بادشاه کو شراب پلانے پر مقرر ہو جائے گا، لیکن دوسرا سولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سرنوچ نوچ کھائیں گے، تم