کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 115
گزرے ہیں اور مزید یہ بھی فرمایا کہ میں نے یہ راستہ محض آبائواجداد کی عقیدت کی بناء پر اختیار نہیں کیا بلکہ عقل عام کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ وہ توحید کا اثبات کرتی ہے اور شرک کا ابطال کرتی ہے۔" [1] مصیبت میں اشتراک بھی تعلق کی بنیاد ہے دل و دماغ کو پوری طرح ہموار کرلینے کے بعد آپ ( علیہ السلام) نے ان نوجوانوں سے اس طرح خطاب فرمایا جو دلنوازی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اے میرے قید اور جیل کے ساتھیو ! اس میں کس قدر یگانگت اور پیار ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ ایسے چند آدمی جو آپس میں کوئی تعلق نہ رکھتے ہوں لیکن اگر کسی مشترک مصیبت میں گرفتار ہوجائیں تو مصیبت کا اشتراک ان کے درمیان تعلق کی بنیاد بن جاتا ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعلق موجود ہو تو مصیبت اس تعلق میں کئی گنا اضافہ کردیتی ہے۔ اقبال مرحوم نے اپنی والدہ کے انتقال پر جو مرثیہ لکھا اس میں اس صدمے میں اشتراک کو دو بھائیوں میں محبت کے اضافے کا سبب قرار دیا۔ تخم جس کا تو ہماری کِشتِ جاں میں بو گئی شرکتِ غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئی ڈاکٹر اسلم صدیقی :تفسیر روح القرآن سیدنا یوسف نے دعوت میں لا جواب حکمت اختیار کی۔ان کے بیان میں اگرچہ توحید کی دعوت اور اس کا اثبات ہے لیکن اس کا انداز براہ راست نہیں بلکہ عمومی اور عقل عام پر مبنی ہے۔ وہ دونوں سائلین چونکہ بادشاہ کے ملازم تھے اور بادشاہ کے عتاب کے باعث وہ جیل پہنچے تھے۔ ان سے زیادہ یہ بات کون سمجھ سکتا تھا کہ ایک آدمی کا ایک آقا ہونا چاہیے یا دو ۔ اور اگر دو آقا ہوں اور محکوم اور ملازم ایک ہو تو اس غریب پر کیا گزرتی ہے اور اس کی شخصیت پر کیسے زخم لگتے ہیں ان دونوں کے لیے ان باتوں کا سمجھنا بہت آسان تھا۔ اس حقیقت کو اللہ تعالی نے یوں بیان کیاہے: ضرب اللہ مثلا رجلا فیہ شرکاء متشاکسون و رجلا سلما لرجل۔ ھل یستویان مثلا : اور اللہ تمثیل بیان کرتا ہے ایک ایسے غلام کی جس میں متعدد مختلف الاغراض شرکاء شریک ہیں اور ایک ایسے غلام کی جو پورا کا پورا ایک ہی آقا کی ملکیت ہے۔ کیا دونوں کی حیثیت ایک جیسی ہوگی) ۔پھر ایک آقا ایسا ہو جو ہر ایک پر غالب
[1] ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی :تفسیر روح القرآن