کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 114
کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ شرک چھوڑنے اور توحید کا عقیدہ اپنانے میں آسانی محسوس کریں ۔ " [1] سیدنا یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے قید خانے کے ساتھیوں سے فرمایا کہ کیا جدا جدا رب جیسا کہ بت پرستوں نے بنا رکھے ہیں کہ کوئی سونے کا ، کوئی چاندی کا ، کوئی تانبے کا ، کوئی لوہے کا ، کوئی لکڑی کا ، کوئی پتھر کا، کوئی اور کسی چیز کا، کوئی چھوٹا کوئی بڑا، مگر سب کے سب نکمے بےکار، نہ نفع دے سکیں نہ ضرر پہنچاسکیں ، ایسے جھوٹے معبود اچھے ہیں یا ایک اللہ تعالیٰ جو سب پر غالب ہے کہ نہ کوئی اس کا مقابل ہوسکتا ہے نہ اس کے حکم میں دخل دے سکتا ہے ، نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر، سب پر اس کا حکم جاری اور سب اس کی ملک میں ہیں ۔ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل مضبوط استعمال کرنے چاہئیں : " اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبلیغ میں الفاظ نرم اور دلائل قوی استعمال کرنے چاہئیں جیسے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نرم الفاظ کے ساتھ ان دو افراد کو اسلام قبول کرنے کی طرف مائل کیا۔" [2] "اس دعوت میں بھی ہمیں ایک تدریج نظر آتی ہے۔ آپ ( علیہ السلام) نے فوراً انہیں دین کی بنیادی باتوں کی دعوت دینا شروع نہیں کی بلکہ سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا اور اس تعارف میں علم تعبیر کو بنیاد بنایا کہ جس اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ علم عطا فرمایا ہے اسی نے مجھے نبوت بھی عطا فرمائی ہے اور یہ علم اسی نبوت کی ہی ایک شاخ ہے۔ اپنی بات میں استحکام پیدا کرنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حق سے اپنی وابستگی اور بےدینی سے لاتعلقی کا اس طرح ذکر فرمایا کہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دین کے راستے پر چلنے کے لیے ان لوگوں سے ترک تعلق کرنا پڑتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتے اور ان لوگوں سے رشتہ جوڑنا پڑتا ہے جو اس راستے کے مشعل بردار
[1] میاں جمیل:فہم القرآن۔ [2] ابو صالح محمد قاسم القادری:تفسیرصراط الجنان۔