کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 113
من شیئ) میں من شیئ شرک کے عموم نفی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے کہ چاہے کوئی چھوٹی چیز ہو یا کوئی حقیر شے، بت ہو یا فرشتہ، یا کوئی جن ہو یا کوئی اور چیز، اسے اللہ کا شریک بنانا حرام ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانا موحد مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اکثر لوگ اللہ کے ناشکرے بندے ہوتے ہیں ، اسی لیے نہ اس پر ایمان لاتے ہیں ، نہ ہی اس کی توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں ، اور نہ اس کی شریعت پر عمل کرتے ہیں ۔" [1] "حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب قافلے والوں نے اٹھایا اور پھر بازار میں فروخت کیا۔ اس وقت انہیں یہ شعور اور علم تو تھا کہ میں حضرت یعقوب پیغمبر کا بیٹا حضرت اسحاق کا پوتا ہوں اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ میرے پڑدادا ہیں ۔ جب ان پر تہمت لگی تو اس وقت وہ تیس سال کے قریب تھے۔ بےگناہ ثابت ہونے کے باوجود انہیں جیل ڈال دیا گیا۔ مگر کسی ایک موقع پر بھی انہوں نے اپنے خاندان کا تعارف نہیں کروایا۔ لیکن جب عقیدۂ توحید بیان کرنے لگے تو اپنے بزرگوں کا تعارف کرواتے ہیں ۔ اس سے پہلے تعارف نہ کروانے کی دو وجوہات میں سے کوئی ایک وجہ یقینی ہے۔ پہلی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں اس وقت روک دیا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عظیم خانوادے کا فرزند ہونے کی وجہ سے خدا داد حوصلے کے سبب قافلے والوں کو اپنا تعارف کروانا مناسب نہ سمجھا۔ بیشک وہ عمر کے لحاظ سے چھوٹے تھے لیکن مستقبل میں نبی بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ تہمت لگنے کے وقت ان کی عمر تیس سال کے قریب تھی لیکن انہوں نے اپنے خاندانی حوالے سے اپنی پاک دامنی کا ثبوت دینے کے بجائے اسے حالات پر چھوڑ دیا کہ وقت آئے گا کہ قرائن اور شواہد سے ثابت ہوجائے گا کہ میرا دامن ہر اعتبار سے پاک صاف ہے۔ توحید کی دعوت دیتے وقت اپنے بزرگوں کا اس لیے تعارف کروایا کہ مصر کے لوگ بھی ان شخصیات سے بہت حد تک واقف اور ان کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اس لیے ان کا نام لیتے ہیں کہ عقیدۂ توحید کو اختیار کرنے اور اس کی دعوت دینے میں ، میں اکیلا نہیں بڑے بڑے انبیاء اور بزرگ اس عقیدہ کے حامل اور اس کی دعوت دیتے آرہے ہیں ۔ اس وضاحت
[1] ڈاکٹر لقمان سلفی :تفسیر تیسیر الرحمان لبیان القرآن۔