کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 105
چیزکوہوبہودوسری چیزمان لیا جاتاہے۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں کا ذکر کیاجاتا ہے جب کہ استعارہ میں مستعار لہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ کہتے ہیں ) نہیں لکھا جاتا صرف مستعار منہ ( جسے تشبیہ میں مشبہ بہ کہتے ہیں ) کا ذکر ہوتا ہے۔ گویا استعارہ میں صرف اس چیز کا ذکر ہوتا ہے جس کواستعارہ بنایا جائے جب کہ تشبیہ میں دونوں کا ذکر کیا جاتا ہے کبھی حرفِ تشبیہ کے ساتھ اور کبھی حرفِ تشبیہ کے بغیر۔" [1] تفسیروبیان آیات از30تا35﴿وَقَالَ نِسْوَةٌ ۔ ۔ ۔ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ﴾ تک آیات کی تفسیر زنانِ مصر کا فتنہ اور یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی عزیز مصر کی عورت، جس کے گھر میں حضرت یوسف (علیہ السلام) رہتے تھے ، اس کا آپ کو پھسلانے کے قصہ کا پتہ جب دوسرے افسران کی بیویوں کو چلا تو انہوں نےعزیز مصر کی بیوی کو مطعون کیا کہ اس نے اپنے ایک غلام کو بہکانے کی کوشش کی ہے تو پھر زلیخا نے ان کو دعوت دی۔انھوں نے اس کی دعوت پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال کا مشاہدہ کیا تو وہ عورتیں بھی اس سلسلے میں زلیخا کی ہم نوا بن گئیں اور یوسف (علیہ السلام) کو مشورے دینے لگیں کہ اس سے مخالفت مول لینا ٹھیک نہیں ہے جس سے حضرت یوسف (علیہ السلام) یہ سمجھ گئے یہ بھی اس کی طرف داری کر رہی ہیں اس لیے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف دعا کرتے ہوئے عرض کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے، اگر تو نے ان کا فن فریب مجھ سے دور نہ کیا تو میں تو ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور بالکل نادانوں میں جا ملوں گا۔چنانچہ اللہ تعالی نے سیدنا یوسف علیہ السلام کی دعا قبول
[1] آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا ۔