کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 104
ہے۔ |35| 12پھر ان تمام نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد بھی انہیں یہی مصلحت معلوم ہوئی کہ یوسف کو کچھ مدت کے لئے قید خانہ میں رکھیں ۔ ان آیات میں استعمال ہونے والےبعض الفاظ وتراکیب کی بلاغی معنویت: "سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ استعار المكر للغيبة لأنها تشبهه في الإخفاء.وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ استعار لفظ القطع للجرح أي جرحن أيديهن." [1] ("سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ "میں مکر کو غیبت کے لیے بطورِاستعارہ اتعمال کیا گیاہے کیونکہ ان دونوں میں اخفاء پایاجاتاہے۔" وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ" میں قطع کو جرح (کاٹنے کو زخمی کرنے ) کے لیے بطورِاستعارہ استعمال کیا گیاہے،یعنی انہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے۔) الاستعارة: [في الانكليزية] Metaphor[ في الفرنسية] Metaphoreفي اللغة: هو أخذ الشيء بالعارية أو عند الفرس: هو إضافة المشبّه به إلى المشبّه، وهذا خلاف اصطلاح أهل العربية. وهو على نوعين:أحدها: استعارة حقيقية، والثاني: مجازية." [2] استعارہ:"علم بیان کی اصطلاح میں حقیقی اور مجازی معنوں کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہونا۔ یعنی حقیقی معنی کا لباس عاریۃَ َ لے کر مجازی معنوں کو پہنانا۔ مثلا نرگس کہہ کر آنکھ مراد لینا۔ استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ استعارہ تشبیہ سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ تشبیہ میں ایک چیز کو دوسری جیسا قرار دیا جاتا ہے جب ان میں کوئی صفت یا خوبی مشترک ہو لیکن استعارے میں ایک
[1] ڈاکٹر وہہ بن مصطفى الزحيلي: التفسير المنير في العقيدة والشريعة والمنهج،جلد12،صفحہ251۔ [2] محمد بن علي ابن القاضي محمد حامد بن محمّد صابر الفاروقي الحنفي التهانوي (المتوفى: بعد 1158هـ): موسوعة كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم،جلد1،صفحہ 158،تقديم وإشراف ومراجعة: د. رفيق العجم ،تحقيق: د. علي دحروج،نقل النص الفارسي إلى العربية: د. عبد اللّٰه الخالدي ،الترجمة الأجنبية: د. جورج زيناني ،الناشر: مكتبة لبنان ناشرون – بيروت ،الطبعة: الأولى - 1996م.عدد الأجزاء: 2.