کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 102
ہے۔ یہاں قوت و ضعف کے فریق ہی الگ الگ ہیں ۔ البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورتوں کے فتنے سے ہوشیار رہنے کی تاکید صحیح احادیث سے ثابت ہے، اسامہ بن زید (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) [ بخاری، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ۔۔ : ٥٠٩٦ ] ” میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ “ ابوسعید خدری (رض) کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
( مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذْھَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ یَامَعْشَرَ النِّسَاءِ ! ) [ بخاری، الزکوٰۃ، باب الزکاۃ علی الأقارب : ١٤٦٢ ] ” میں نے عقل اور دین کی ناقص شخصیات میں سے کسی کو تمہاری کسی ایک سے زیادہ ہوشیار آدمی کی عقل کو لے جانے والا نہیں دیکھا، اے عورتوں کی جماعت ! “ ” اور ابوبکرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایرانیوں کے اپنے بادشاہ کی بیٹی کو بادشاہ مقرر کرنے پر فرمایا:( لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَھُمُ امْرَأَۃً ) ” وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جنھوں نے اپنا امر (سلطنت) کسی عورت کے حوالے کردیا۔ “ [ بخاری،]"[1]
فقہی احکام
قاضی کے لیے یہ ضروری ہے کہ جب تک وہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں کی بات نا سن لے تب تک فیصلہ نا کرے جیسا کہ قاضی نے ان آیات کے مطابق عزیز مصر کی بیوی اور سیدنا یوسف علیہ السلام دونوں کی بات سننے کے بعد فیصلہ سنایا۔
[1] حافظ عبد السلام بھٹوی: تفسیر القرآن العظیم