کتاب: تفسیر سورۂ یوسف - صفحہ 100
کے ساتھ برا اراده کرے بس اس کی سزا یہی ہے کہ اسے قید کر دیا جائے یا اور کوئی دردناک سزا دی جائے۔ یوسف نے کہا یہ عورت ہی مجھے پھسلا رہی تھی اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی کہ اگر اس کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے اور یوسف جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے۔‘‘ سیدنا یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کی گواہی کس نے دی؟ عورت کے قبیلے ہی کے کس نے گواہی دی؟ اس کی بابت مفسرین میں اختلاف ہے اس بابت تحقیقی وضاحت ذیل میں درج ہے: "وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَا ۔۔ : عزیز مصر اور گھر کے خصوصی افراد دونوں کی بات سن کر پس و پیش میں پڑگئے کہ کسے سچا کہیں اور کسے جھوٹا ؟ کیونکہ وقوعہ کے وقت کوئی شخص پاس موجود ہی نہ تھا۔ ایسے وقت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ موقع دیکھ کر قرائن سے فیصلہ کیا جائے، اسے قرینے کی شہادت بھی کہتے ہیں ۔ دیکھا گیا تو عورت کے جسم یا لباس پر دست درازی کا کوئی نشان نہ تھا۔ ہاں ، یہ بات سب کو معلوم ہوچکی تھی کہ یوسف کی قمیص پھٹی ہے۔ عزیز مصر کی بیوی کے گھر والوں میں سے ایک سمجھ دار آدمی نے فیصلہ کیا (یہاں شہادت کا لفظ قرینے پر فیصلہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے) کہ قمیص کو دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ ظاہر ہے کہ اس آدمی نے ابھی تک قمیص دیکھی نہ تھی، ورنہ وہ یہ نہ کہتا کہ قمیص دیکھو کدھر سے پھٹی ہے، بلکہ اس نے ایک مسلمہ قاعدے کے طور پر یہ فیصلہ دیا۔ جب عزیز مصر نے قمیص دیکھی کہ پیچھے سے پھٹی ہے تو ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی اور پھر صرف اپنی بیوی ہی نہیں سب عورتوں کے متعلق کہہ دیا کہ یقیناً یہ تمہارے فریب میں سے ایک فریب ہے، یقیناً تم عورتوں کا فریب بہت بڑا ہے۔ یہ شاہد کون تھا ؟ مستدرک حاکم اور بعض دوسری کتب میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ وہ ان چار بچوں میں سے ایک تھا جنھوں نے گود میں کلام کیا۔ اس حدیث کو بہت سے اصحاب نے صحیح یا حسن کہا ہے، مگر بہت سے اصحاب نے ضعیف بھی کہا ہے۔ جن میں سے شیخ ناصر الدین البانی (رض) سرفہرست ہیں ۔ دیکھیے : ” سلسلۃ الأحادیث