کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 46
آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے اور ہواؤں کے بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان وزمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘
یہاں بھی آسمانوں اور زمین اور ان کے مابین تمام امور کے بارے میں فرمایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے انتظام وانصرام میں ہیں اور وہی اکیلا تمھارا معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
﴿ وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ﴾ اور وہی تمام مشرقوں کا رب ہے۔ علامہ راغب نے کہا ہے کہ ’’المشرق والمغرب‘‘ جب مفرد ہوں تو ان میں شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے۔ جیسے فرمایا:
﴿ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا ﴾ [المزمل: ۹]
’’مشرق ومغرب کا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سو اس کو کار ساز بنالے۔‘‘
اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں، جیسے فرمایا:
﴿ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ ﴾ [الرحمن: ۱۷]
’’(وہ) دونوں مشرقوں کا ربّ ہے اور دونوں مغربوں کا ربّ ہے۔‘‘
اور جب یہ جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق، مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا، جیسے یہاں ہے: ﴿ وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ﴾ ایک اور مقام پر ہے:
﴿ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ (40) عَلَى أَنْ