کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 44
﴿ قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (86) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴾ [المؤمنون: ۸۷، ۸۶] ’’کہہ ساتوں آسمانوں کا ربّ اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ ضرور کہیں گے اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہہ دے پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟‘‘ مشرکین متعدد معبودوں کی پرستش کرتے تھے مگر وہ اس دعوے کی جراَت نہیں کرتے تھے کہ ہمارے معبودوں نے زمین وآسمان یا ان کے مابین جو کچھ ہے، ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہے یا یہ کہ انھیں ان میں کسی قسم کے تصرف کی قدرت حاصل ہے۔ لیکن انھیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شریک بناتے تھے اور اپنے بے بنیاد عقیدے کی بنا پر سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ انتظام وانصرام ان کے بھی سپرد کر رکھا ہے۔ یہاں اسی تناظر میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کا ربّ کون ہے؟ اور تمام مشرقوں کا رب کون ہے؟ کس کے حکم سے سورج روزانہ مختلف مقامات سے طلوع ہوتا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھگڑنے والے نمرود سے بھی کہا تھا: ﴿ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴾ [البقرۃ: ۲۵۸] ’’پھر اللہ تو سورج کو مشرق سے لاتا ہے، پس تو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا حیرت زدہ رہ گیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ عالمِ اسفل میں بتوں کے لیے موہوم اختیار کے دعوے داروں کفار و مشرکین سے جب بھی عالم اعلیٰ کے حوالے سے سوال ہوا تو اس کا جواب سوائے بے بسی کے نہیں آیا۔ یہی اسلوبِ استدلال یہاں ہے کہ معبود ایک ہے جو آسمانوں اور زمین اور