کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 43
رکھتے ان کے دل انکار کرنے والے ہیں اور وہ بہت تکبر کرنے والے ہیں۔‘‘
ایک اللہ کے ذکر پر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کی کیفیت یوں بھی بیان فرمائی ہے:
﴿ وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ﴾[الزمر: ۴۵]
’’اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘
کفار کی اسی کیفیت کا اظہار ایک اور جگہ میں بھی ہوا ہے۔[1] ان کے اسی تمرد اور تعجب کے جواب میں گویا اللہ تعالیٰ نے تین قسموں کے ساتھ اور مزید دو تاکیدوں کے ساتھ فرمایا ہے: بے شک تمھارا معبود یقینا ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ جنھیں تم نے اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر معبود بنا رکھا ہے، وہ تو خود بڑے احترام سے صفیں باندھے اللہ کے عبادت گزار ہیں اور اللہ کی تسبیح وتحمید میں مصروف ہیں اور اس کے احکام کی ذمہ داریاں نبھانے میں لگے ہوئے ہیں۔
﴿ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ﴾ یہ ’’اِنّ‘‘ کی خبر ثانی ہے یا ’’لواحد‘‘ کا بدل ہے، یا مبتدا محذوف کی خبر ہے۔[2]
اللہ تعالیٰ نے اپنے وحدہ لا شریک ہونے کا اعلان قسم اور یقینی حروف کے ساتھ ہی نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ دلیل بھی بیان فرمائی ہے کہ وہی اللہ واحد آسمانوں اور زمین اور ان کے مابین ساری چیزوں کا رب ہے۔ کفار مکہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین وآسمان کا ربّ صرف اللہ ہے۔
[1] بني إسرائیل: ۴۶.
[2] فتح القدیر.