کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 40
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کی قسم کھائی ہے۔ طور پہاڑ، انجیر اور زیتون کی قسم کھائی ہے حتی کہ شمس و قمر، لیل و نہار اور آسمان و زمین کی بھی قسم کھائی ہے۔ حالانکہ قسم تو بڑی اور عظیم چیز کی کھائی جاتی ہے، مخلوق جو ہر لحاظ سے کمتر ہے اس کی قسم اللہ تعالیٰ نے کیوں کھائی ہے؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنی صفات کی قسم کھائی ہے اور مخلوق بھی اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہے، اس بنا پر مخلوق کی قسمیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف راجع ہوتی ہیں[1]
دراصل قسم شہادت کے قائم مقام ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کے قول ’’نشہد إنک لرسول اللہ‘‘ کی تردید میں فرمایا ہے: ﴿اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً ﴾ [المجادلۃ: ۱۶] کہ انھوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ یہاں ان کی ’’شہادت‘‘ کو قسم قرار دے کر ان کی مذمت کی گئی ہے۔ کسی معاملے کو نبٹانے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہے اگر دو گواہ نہ ہوں تو ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلے کی اجازت ہے۔
صحیح مسلم وغیرہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’قضی بیمین وشاہد‘‘[2] ایک قسم اور شاہد پر فیصلہ فرما دیا۔ تو یوں قسم گواہی کے قائم مقام ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی جو قسمیں کھائی ہیں تو یہ بطور شہادت وگواہی کے بھی ہیں کہ فرشتے، لیل ونہار اور زمین وآسمان گواہ ہیں کہ معبود برحق صرف اللہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کی قسم کھانا قطعاً اس بات کی دلیل نہیں کہ ہمارے لیے بھی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی مخلوق کی قسم کھانا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے اور کرسکتا ہے، وہ کسی حکم کا پابند نہیں مگر ہم حکمِ شرعی کے پابند ہیں ہمیں حکم ہے کہ جب قسم کھاؤ تو اللہ کی قسم کھاؤ۔ بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے
[1] التبیان لابن القیم.
[2] صحیح مسلم: (۱۷۱۲).