کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 39
بیان کی گئی ہیں۔
’’الصّٰفّٰت‘‘ سے مراد قرآنِ مجید کی وہ آیات ہیں جن میں ’’دلائل توحید‘‘، ’’دلائل النبوۃ‘‘، ’’دلائل المعاد و المعاش‘‘، ’’دلائل الاحکام‘‘ اور ’’تعلیم الاخلاق‘‘ پر مشتمل مختلف عنوانات کو ایک ایسے طریقے وسلیقے سے مرتب کیا گیا ہے کہ وہ باہم آپس میں ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ ان میں تبدیلی وتغیر ممکن نہیں۔ انھی آیات میں وہ آیات بھی ہیں جو منکرات پر زجر وتوبیخ کرتی ہیں اور وہ بھی ہیں جو اعمال البر والخیر پر آمادہ کرتی ہیں۔ اور قرآن میں امم سابقہ کے احوال سے آگاہ کرتی ہیں۔ یہ قول امام قتادہ، ربیع بن انس اور زید بن اسلم سے بھی منقول ہے کہ الزاجرات، اور التلیت سے مراد آیاتِ قرآنی ہیں۔
ان تعبیرات کی بھی گو گنجایش ہے مگر ان میں سب سے صحیح اور راجح پہلی تفسیر وتعبیر ہے کہ اس سے مراد فرشتے ہیں۔ اکثر مفسرین کی بھی یہی رائے ہے۔ ان آیات میں فرشتوں کی تین صفات بیان ہوئی ہیں:
1 وہ عبادت کے لیے صف باندھے ہوئے ہیں۔ غیر منظم اور بھیڑوں کی صورت میں جمع نہیں ایک ترتیب وسلیقے کے ساتھ صف میں کھڑے ہوتے ہیں ان کے ہاں کوئی بدنظمی نہیں جس میں ہمارے لیے بھی نظم وضبط کا سبق ہے۔
2 سرکشوں کو زجر وتوبیخ کرتے ہیں۔
3 اللہ کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہتے ہیں اور احکام الٰہی کو دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ گویا ان کے ہاں ایک سلیقہ وطریقہ ہے، عبادت ہے، امر بالمعروف ہے اور نہی عن المنکر ہے۔ انھی چیزوں کا اہلِ ایمان سے مطالبہ بھی ہے۔
مخلوق کی قسم کھانا:
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی قسم کھائی ہے۔ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے