کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 38
تیسری تاویل:
ان اوصاف سے متصف مجاہدین مراد ہیں جو صف باندھے ہوئے لڑتے ہیں۔ جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ﴾ [الصف: ۴]
’’بلاشبہہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں۔‘‘
’’زاجرات‘‘ سے مراد جہاد میں گھوڑوں کو زجر کرنا اور ’’التّٰلیٰت‘‘ سے جہاد کے دوران تلاوت قرآن اور ذکر کرنا ہے۔ جس کا حکم قرآنِ مجید ہی میں ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [الأنفال: ۴۵]
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
چوتھی تاویل:
ایک توجیہ یہ بھی بیان ہوئی ہے کہ اس سے مراد علمائے ربانیین کی جماعت ہے جو دین کی دعوت دیتے ہیں۔ اور دین سے دور رہنے اور شہوات میں مبتلا ہونے والوں کو زجر وتوبیخ کرتے ہیں اور ’’التلیت ذکرا‘‘ میں قرآن پاک سے وعظ وتبلیغ میں مشغول رہنے کا بیان ہے۔
پانچویں تاویل:
ایک تفسیر و تعبیر یہ بھی ہے کہ ان تینوں آیات میں قرآنِ مجید کی ہی صفات