کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 37
مُقْتَرِنِينَ ﴾ [الزخرف: ۵۳]
’’پس اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے، یا اس کے ہمراہ فرشتے مل کر کیوں نہیں آئے؟‘‘
کفار کے ذہنوں میں فرشتوں کے اسی تقدس کی بنا پر ان کی صفات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کے فرمایا ہے: ﴿إِنَّ إِلَهَكُمْ لَوَاحِدٌ ﴾ ’’بے شک تمھارا معبود یقینا ایک ہے۔‘‘
گذشتہ آیات ۳۔ ۱ کی دوسری تاویل:
ان صفات کے حاملین کے بارے میں ایک تاویل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان سے نفوس بشریہ مقدسہ مراد ہیں۔ جو صفیں باندھے اللہ کی بندگی میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہی تعوذ کے ذریعے وساوس شیطانی دور کرتے اور شیاطین کو زجر کرتے ہیں۔ اور نماز میں بلند آواز سے قرآن کی قراء ت کرکے شیاطین کو ڈانٹتے ہیں۔ جیسے حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات نکلے آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! میں آپ کے پاس سے گزرا تم آہستہ آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میں جس سے سرگوشی کر رہا تھا اسے سنا رہا تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عمر! میں تمھارے پاس سے گزرا تم اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ انھوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں سونے والوں کو جگا رہا تھا اور شیطان کو دھتکار رہا تھا[1] اور تلاوتِ ذکر سے مراد نماز میں تلاوتِ قرآن ہے۔
[1] سنن أبي داود: (۱۳۲۹)، سنن الترمذي: (۴۴۷).