کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 35
رخصت ہوتے ہوئے آتے ہیں اور ان کی تسکین واطمینان کا باعث بنتے ہیں جیسے فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (30) نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴾ [حٰم السجدۃ: ۳۱، ۳۰]
’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا ربّ اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے ہم تمھارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی، اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمھارے دل چاہیں گے اور تمھارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔‘‘
ان صفات سے متصف فرشتوں کا ہی یہاں ذکر ہے یہی جمہور مفسرین کی رائے ہے۔ عربی زبان میں ’’ف‘‘ کا استعمال صفات کے بیان میں ہو تو وہ صفات ایک ہی چیز کی ہوتی ہیں۔
یہاں فرشتوں کی قسم سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ان کا ایک مقام ہے۔ وہ صفیں باندھے ہوئے اللہ کی بندگی اور اللہ کی تسبیح وتہلیل میں مصروف رہتے ہیں، اللہ کے نافرمانوں کو دھتکارتے اور ڈانٹتے ہیں۔ انھی کے بارے میں یہ ارشاد بھی ہے:
﴿لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴾ [التحریم: ۶]
’’جو اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جو وہ انھیں حکم دے اور وہ کرتے ہیں جو حکم دیے جاتے ہیں۔‘‘