کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 34
’’تلاوت‘‘ کا تعلق اگرچہ قرآن پاک کے پڑھنے پر ہوتا ہے مگر حدیث وسنت پر بھی اس کا اطلاق ہوا ہے۔ چنانچہ ازواجِ مطہرات  کو فرمایا گیا ہے: ﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ﴾ [الأحزاب: ۳۴] ’’اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔‘‘ یہاں ’’حکمت‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں۔ جنھیں حدیث و سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت ہی نہیں کرتے تھے۔ اس کی تعبیر وتشریح اور اللہ کی تسبیح وتحمید بھی کرتے تھے۔ امام السدی نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرآن یا اس کی کتاب اس کے بندوں کے پاس لاتے ہیں۔ جیسے سورۃ المرسلات میں ہے: ﴿فَالْمُلْقِيَاتِ ذِكْرًا (5) عُذْرًا أَوْ نُذْرًا ﴾ [المرسلات: ۵، ۶] ’’پھر جو (دلوں میں) یادِ (الٰہی) ڈالنے والی ہیں، عذر کے لیے یا ڈرانے کے لیے۔‘‘[1] یعنی وحی اتارنے والے ان فرشتوں کی قسم جو عذر کو ختم کرنے یا خبردار کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اس پر یہ اشکال ہے کہ وحی کے امین تو جبرئیل امین علیہ السلام ہیں ان کے ہمراہ فرشتوں کی جماعت اگر بسا اوقات آئی ہے تو ناطق وحی جبرئیل علیہ السلام ہی ہیں مگر یہاں جمع کا صیغہ ’’فالتلیت‘‘ ہے، اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کی عظمت کی بنا پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔[2] اور ممکن ہے اس سے وہ فرشتے مراد ہوں جو اہل ایمان کے پاس اس دنیا سے
[1] تفسیر ابن کثیر. [2] تفسیر القرطبي.