کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 33
قریب جانے پر دھتکارتے اور روکتے ہیں تاکہ وہ استراق سمع کے ارادے میں کامیاب نہ ہوں۔ امام رازی وغیرہ نے فرمایا ہے کہ فرشتوں کی الہامات کے ذریعے بنو آدم کے دلوں پر تاثیر ہوتی ہے، وہ انھیں گناہوں سے روکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شیاطین کو زجر وملامت کرتے ہوں کہ تم کیوں انسانوں کو گمراہ کرتے ہو۔ اس کی کچھ تائید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رمضان المبارک آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ آواز دیتا ہے: ’’یا باغی الخیر اقبل ویا باغی الشر اقصر‘‘[1] ’’اے بھلائی کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے گناہوں کے طلب گار! رک جا۔‘‘ غالباً اسی منادی کا نتیجہ ہے کہ دوسرے مہینوں کے مقابلے میں رمضان المبارک میں نیکی کا میلان بڑھ جاتا ہے۔ فرشتے نورانی مخلوق ہیں ان کی آواز سے انسانی ارواح متاثر ہوتی ہیں۔ واللہ أعلم۔ ﴿فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا ﴾ پھر ان کی (قسم) جو ذکر کی تلاوت کرنے والی ہیں۔ یہ فرشتوں کی تیسری صفت ہے جیسا کہ امام مجاہد نے فرمایا ہے۔[2] تلاوتِ ذکر سے مراد وہی ہے، جو اسی سورت کے آخر میں ﴿وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ﴾ کے الفاظ سے وارد ہوئی ہے۔ سورۃ الزمر میں بھی ہے: ﴿وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ ﴾[3] ’’اور تو فرشتوں کو دیکھے گا عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کررہے ہیں۔‘‘
[1] سنن الترمذي: (۶۸۲)، سنن النسائي: ( ۲۱۰۹) وغیرہ. [2] ابن جریر. [3] الزمر: (۷۵).