کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 32
’’أیتہا النفس الخبیثۃ أخرجي إلی سخط من اللہ وغضب‘‘[1]
’’او خبیث نفس! اللہ کی ناراضی اور غضب کی طرف چلو۔‘‘
روح جسم میں پھیل جاتی ہے، وہ اس کو جسم سے یوں کھینچتے ہیں جیسے تر روئی سے لوہے کی سلاخ کھینچی جاتی ہے۔
یہ زجر و توبیخ کرنے والے وہ فرشتے بھی مراد ہوسکتے ہیں جو بادلوں کو زجر و توبیخ کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی جنگل میں جا رہا تھا تو اس نے بادل میں سے آواز سنی۔ فلاں شخص کے باغ کو پانی دے، پھر بادل ایک طرف چلا اور اپنا پانی پتھریلی زمین پر برسایا۔ نالیوں میں سے ایک نالے میں پانی جمع ہوا۔ اور وہ آدمی نالے کے پانی کے پیچھے چلنے لگا۔ پھر کیا دیکھتا ہے کہ ایک آدمی اپنے باغ میں اپنے بیلچے کے ساتھ پانی لگا رہا ہے۔ اس شخص نے اسے کہا: اے اللہ کے بندے! تیرا کیا نام ہے؟ اس نے اپنا وہی نام بتلایا جو اس نے بادلوں سے سنا تھا۔ اس نے کہا: تمھیں میرے نام سے کیا مقصد؟ اس نے کہا: میں نے اس بادل سے آواز سنی تھی، جس کا یہ پانی ہے، تیرا نام لے کر کہا گیا کہ فلاں کے باغ کو سیراب کرو، تم اپنے باغ میں کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا: جب باغ پھل دیتا ہے تو اس کا تہائی صدقہ کردیتا ہوں اور ایک تہائی اہل وعیال میں اور ایک تہائی اس باغ میں لگا دیتا ہوں۔[2]
حافظ ابن کثیر نے ذکر کیا ہے بارش اور نباتات کا انتظام اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے میکائیل علیہ السلام کے سپرد کیا ہے، وہ اللہ کے حکم سے ہواؤں اور بادلوں کو اِدھر اُدھر لے جاتے ہیں اور ان کے اس بارے میں بہت سے اعوان وانصار ہیں۔[3]
یہ زجر کرنے والے وہ فرشتے بھی مراد ہوسکتے ہیں جو شیاطین کو ملأ الاعلیٰ کے
[1] مسند أحمد: (۴؍ ۲۸۷ وغیرہ).
[2] صحیح مسلم: (۲۹۸۴).
[3] البدایۃ: (۱؍ ۴۶).