کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 30
﴿وَمَا مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقَامٌ مَعْلُومٌ (164) وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ (165) وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ ﴾ [الصّٰفّٰت: ۱۶۴۔ ۱۶۶]
’’اور ہم میں سے جو بھی ہے اس کی ایک مقرر جگہ ہے۔ اور بلاشبہہ ہم، یقینا ہم صف باندھنے والے ہیں۔ اور بلاشبہہ ہم، یقینا ہم تسبیح کرنے والے ہیں۔‘‘
صف باندھنے والوں میں وہ فرشتے بھی ہیں جو عرشِ عظیم کے اردگرد صف بستہ ہیں۔ چنانچہ سورۃ الزمر میں ہے:
﴿وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ﴾ [الزمر: ۷۵]
’’اور تو فرشتوں کو دیکھے گا، عرش کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں۔‘‘
قیامت کے روز بھی فرشتے میدان محشر میں قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے۔
﴿يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ﴾ [النبأ: ۳۸]
’’جس دن روح اور فرشتے صف بنا کر کھڑے ہوں گے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴾ [الفجر: ۲۲]
’’اور تیرا ربّ آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔‘‘
﴿فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا ﴾ پھر ان کی (قسم) جو ڈانٹنے والی ہیں زبردست ڈانٹنا۔ ’’زجر‘‘ کے معنی، جھڑکنا، دھتکارنا، روکنا اور ڈانٹنا ہیں۔ یہاں بھی ڈانٹنے والی جماعتوں سے مراد فرشتوں کی جماعتیں ہیں۔ یہی امام مجاہد رحمہ اللہ کا قول ہے۔ اور یہی قول راجح ہے۔[1]
[1] ابن جریر.