کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 28
صالح جزرہ رحمہ اللہ نے کہا ہے، وہ حدیثیں گھڑتا تھا امام یحییٰ رحمہ اللہ نے اسے ’’لیس بشیٔ ‘‘، اور ’’کذاب‘‘ کہا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتا تھا اور ثقات سے موضوع روایات بیان کرتا تھا۔ اسی نے یہ روایت بنائی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو میرے منبر پر دیکھو تو قتل کردو۔[1] (معاذ اللہ)
ابونعیم کی دلائل النبوۃ میں بھی یہ اسی ابوایوب سلیمان بن داود المنقری قال ثنا الحکم بن ظہیر کی سند سے ہے اور یہ سلیمان بن داود المنقری وہی الشاذکونی ہے۔ یہ دونوں استاذ شاگرد متروک متہم بالکذب ہیں۔ اور مضطرب بھی ہیں کبھی وہ اسے ابن عباس سے اور کبھی انس بن مالک سے بیان کرتے ہیں۔ ایسے راویوں کی روایات قطعاً قابلِ التفات نہیں ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل ومعجزات اور فضائل سوَر و اعمال کے لیے اس قسم کے راویوں پر اعتماد سراسر اصول شکنی ہے اور نہ ہی صحیح احادیث کی موجودگی میں ان کی کوئی حاجت وضرورت ہے۔
وَالصّٰفّٰت:
’’و‘‘ قسمیہ ہے اور الصّٰفّٰت یہ اسم فاعل جمع مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس کی اصل ’’الصف‘‘ ہے جس کے اصل معنی ہیں، کسی چیز کو خط مستوی پر کھڑا کرنا۔ جیسے انسانوں کو ایک صف میں کھڑا کرنا یا ایک لائن میں درخت وغیرہ لگانا۔[2]
آیت کے معنی ہیں: قسم ہے ان (جماعتوں) کی جو صف باندھنے والی ہیں۔ اس سے مراد فرشتے ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام سعید بن جبیر، مسروق، مجاہد اور قتادہ رحمہم اللہ وغیرہ سے منقول ہے بلکہ امام ابن جریر نے فرمایا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔ حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] تفصیل کے لیے تہذیب: (۲/ ۴۲۸) اور میزان: (۱/ ۵۷۱) ملاحظہ ہو.
[2] مفردات.