کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 27
ہوں، انھوں نے کہا ہم آپ کو آپ کے نام سے پکاریں گے؟ آپ نے فرمایا: میرا نام اللہ نے رکھا اور میں ابوالقاسم ہوں۔ انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم ہم نے ایک چیز چھپائی ہے بتلائیں وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ ایسا تو کاہن کرتے ہیں اور کاہن اور کہانت دوزخ میں ہوں گے۔ انھوں نے کہا: ہم کیسے جانیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی میں کنکریاں اٹھائیں اور فرمایا یہ میری رسالت کی گواہی دیں گی۔ چنانچہ کنکریوں نے اللہ کی تسبیح بیان کی اور انھوں نے کہا: ’’نشہد إنک رسول اللہ‘‘ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے مجھ پر کتاب اتاری ہے جس کے سامنے سے باطل آسکتا ہے نہ ہی اس کے پیچھے سے۔ انھوں نے کہا ہمیں اس کتاب سے کچھ سنائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الصفت، ورب المشارق تک تلاوت فرمائی۔[1] الخ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی مختصراً اس کا ذکر کیا ہے۔[2] مگر یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور غالباً انھی کی اقتدا میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے جو اسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ابونعیم کی ’’دلائل النبوۃ‘‘ سے نقل کیا تو ’’دلائل النبوۃ‘‘ میں یہ حضرت انس بن مالک سے ہے۔[3] البتہ امام ابوطاہر سلفی رحمہ اللہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ذکر کرتے ہیں اور اس کی سند یوں ہے: ’’سلیمان بن داود الشاذکوني حدثنا الحکم بن ظہیر عن الشعبي عن أبي مالک عن ابن عباس‘‘[4] سلیمان الشاذکونی معروف متروک ہے اور حکم بن ظہیر کو امام ابوحاتم، امام بخاری، ابوزرعہ، نسائی رحمہم اللہ نے متروک کہا ہے۔
[1] الدر المنثور: (۵؍ ۲۷۱) ملخصا. [2] فتح القدیر: (۴؍ ۳۸۵). [3] دلائل النبوۃ (۲/ ۲۳۷، رقم: ۱۹۰). [4] الطیوریات: (۱۲۴۶).