کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 26
قراء ت کرتے تھے۔[1] ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی روایت میں ہے کہ یہ سورت آپ صبح کی نماز میں تلاوت فرماتے تھے۔[2] 2 ابن النجار کی تاریخ اور ابن ابی داود کی فضائل القرآن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جمعہ کے روز سورۃ الصّٰفّٰت اور سورۃ یٰسٓ پڑھ کر اللہ سے دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتے ہیں۔[3] مگر یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ہی ذکر کیا ہے کہ یہ ’’نہشل بن سعید الوردانی عن الضحاک عن ابن عباس‘‘ سے منقول ہے۔ اور نہشل کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ’’لیس بشیٔ، لیس بثقۃ‘‘ کہا ہے۔ امام ابو داود رحمہ اللہ نے ’’لیس بقوی، متروک الحدیث‘‘، اور امام اسحاق رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ ’’کذاب‘‘ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’متروک الحدیث لیس بثقۃ ولا یکتب حدیثہ‘‘ کہا ہے۔ بلکہ ابوسعید رحمہ اللہ نقاش نے کہا ہے کہ یہ ضحاک سے موضوعات روایت کرتا ہے۔[4] ایسے کذاب اور متروک کی روایت قطعاً قابلِ عمل نہیں ہے۔ 3 علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بحوالہ ابونعیم اور ’’الطیوریات للسلفي‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ اہلِ حضر موت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں بادشاہ نہیں ہوں محمد بن عبداللہ
[1] مسند أحمد: (۲؍ ۴۰) سنن النسائي: (۸۲۵) وغیرہ. [2] مسند أحمد (۲/ ۴۰). [3] الدر المنثور: (۵؍ ۲۷۰) فتح القدیر: (۴؍ ۳۸۵). [4] تہذیب: (۱۰؍ ۴۷۹) میزان: (۴؍ ۲۷۵).