کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 25
بسم الله الرحمن الرحيم ﴿ وَالصَّافَّاتِ صَفًّا (1) فَالزَّاجِرَاتِ زَجْرًا (2) فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا (3)﴾[الصّٰفّٰت: ۳۔ ۱] ’’قسم ہے ان (جماعتوں) کی جو صف باندھنے والی ہیں خوب صف باندھنا۔ پھر ان کی جو ڈانٹنے والی ہیں زبردست ڈانٹنا۔ پھر ان کی جو ذکر کی تلاوت کرنے والی ہیں۔‘‘ سورت کا تعارف: سورۃ الصّٰفّٰت بالاتفاق مکی ہے۔ ترتیبِ مصحف میں اس سورت کا نمبر ۳۷ ہے۔ اور ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس کا نمبر ۵۶ ہے۔ قرآنِ مجید کی سات منزلوں میں سے چھٹی منزل کا آغاز اسی سورت سے ہوتا ہے۔ یہ سورۃ الانعام کے بعد اور سورۃ لقمان سے پہلے نازل ہوئی ہے۔[1] اس کا مشہور نام تمام مصاحف میں ’’الصّٰفّٰت‘‘ ہے۔ علامہ سیوطی نے فرمایا ہے: ’’الجعبری کے کلام میں میں نے دیکھا کہ اس کا نام سورۃ الذبیح ہے مگر یہ قول مستند روایت کا محتاج ہے۔‘‘[2] سورت کا آغاز ’’والصّٰفّٰت‘‘ ہی اس کی وجہ تسمیہ ہے۔ اس کی کل ۱۸۲ آیات ہیں۔ سورۃ الصّٰفّٰت کے بارے میں احادیث: 1 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے میں تخفیف کا حکم دیتے تھے اور جب آپ ہمیں نماز پڑھاتے تو سورۃ الصّٰفّٰت کی
[1] الاتقان: (۱/ ۱۱). [2] الاتقان: (۱/ ۵۶).