کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 171
اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو۔‘‘ یہاں بھی یہ معنی نہیں اغلام بازی بھی پاک ہے۔ حالانکہ اس میں غلاظت ہے پاکیزگی کا کوئی تصور نہیں۔ اس کی اور بھی مثالیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے تفضیل کا صیغہ ہمیشہ ایک دوسری چیز پر برتری اور فضیلت کے لیے ہی نہیں آتا بلکہ کبھی مطلقاً اس سے فضیلت مراد ہوتی ہے۔ دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ جب کسی چیز کی فضیلت بیان کرنی ہوتو اسے صیغہ تفضیل سے ذکر کرتے ہیں۔ جیسے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے ؎ أتہجوہ ولست لہ بکفء فشر کما لخیر کما الفداء ’’کیا تُو اس کی ہجو کرتا ہے حالانکہ تُو اس کے برابر نہیں۔ تمھارا شر تمھارے خیر کے لیے قربان ہے۔‘‘ یہاں ’’شر‘‘ کا ’’خیر‘‘ سے تقابل نہیں، بلکہ خیار کی فضیلت مراد ہے۔ یا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ﴾ [یوسف: ۳۳] ’’اے میرے ربّ! مجھے قید خانہ اس سے زیادہ محبوب ہے، جس کی طرف یہ سب مجھے دعوت دے رہی ہیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ جس کی وہ دعوت دیتی تھیں اس میں انھیں کوئی رغبت ہی نہ تھی۔ اس لیے تفضیل کا صیغہ ہمیشہ افضلیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کبھی اس سے شے کی مطلق فضیلت وحیثیت بھی مراد ہوتی ہے۔ یہاں بھی جہنم میں کوئی خیر نہیں بلکہ شر محض ہے مقصود جنت کی فضیلت بیان کرنا ہے۔ یہ دونوں جواب علماء نے ذکر کیے ہیں اور یہ دونوں باہم متقارب ہیں۔[1]
[1] اضواء البیان.