کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 170
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان آیات میں لفظ ’’خیر‘‘ صیغہ تفضیل ہے جو مفضل اور مفضل علیہ میں مشارکت کا متقاضی ہے گو مفضل میں فضیلت، مفضل علیہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ جبکہ یہاں مفضل علیہ جنت ہے کہ یہ بہتر ہے یا جہنم۔ حالانکہ جہنم میں تو کوئی خیر نہیں، شر ہی شر ہے۔ اور سورۃ الفرقان میں مفضل علیہ جہنم ہے۔ اور اس میں کوئی خیر نہیں۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے صیغہ تفضیل کبھی صرف صفت بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے اس میں ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دینا مقصود نہیں ہوتا، جیسے قرآن مجید ہی میں ہے: ﴿ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى ﴾ [یونس: ۳۵] ’’تو کیا جو حق کی طرف راہنمائی کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو خود اس کے سوا راستہ نہیں پاتا کہ اسے راستہ بتایا جائے۔‘‘ تو یہاں یہ معنی نہیں کہ گم گشتہ راہ بھی حق دار تو ہے البتہ حق کی راہنمائی کرنے والا اس سے زیادہ حق دار ہے۔ یا جیسے مشرک اور موحد کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ﴾ [الأنعام: ۸۱] ’’ان دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے؟‘‘ یا جیسے حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ يَا قَوْمِ هَؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ﴾ [ھود: ۷۸] ’’اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں تو