کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 169
جاتا ہے۔ زقوم کا درخت عرب کے علاقے تہامہ میں پایا جاتا ہے، جس کا مزہ کڑوا، بُو اُس کی ناگوار اور اس کے پتے چوڑے اور خار دار ہوتے ہیں۔ اس سے سفید رنگ کا رس یا دودھ نکلتا ہے، وہ اگر انسانی جسم پر لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔
زقوم کے درخت سے ایک معین اور خاص درخت بھی مراد ہو سکتا ہے، جس کا پھیلاؤ پورے جہنم میں ہوگا جیسے جنت میں طوبی درخت ہے، جس کی ٹہنیاں پوری جنت میں پھیلی ہوئی ہیں یا پھر اس سے مراد زقوم درخت کی جنس ہے۔[1]
زقوم کا یہ درخت دُنیا کے زقوم سے مختلف ہوگا۔ جیسے جنت میں انار، انگور وغیرہ پھل دُنیا کے پھلوں کے ناموں پر ہوں گے مگر اپنے ذائقہ اور حجم کے اعتبار سے دُنیا کے پھلوں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی۔ یا جیسے دوزخ کی آگ اور اس میں سانپ بچھو وغیرہ دُنیا کی آگ اور دُنیا کے سانپوں اور بچھووں سے کہیں زیادہ خوف ناک اور خطر ناک ہوں گے۔ اسی طرح دوزخ کا زقوم دنیا کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور اپنے ذائقے میں کہیں زیادہ کڑو ااور تکلیف دہ ہو گا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اگر زقوم کا ایک قطرہ دُنیا والوں پر گرادیا جائے تو ان کے تمام کھانے کی اشیاء فاسد ہوجائیں، ان کا کیا حال ہوگا جن کا کھانا ہی زقوم ہوگا۔‘‘[2]
یہاں جنت کا ذکر پہلے ہے اس کے بعد دوزخ کا بیان ہے۔ دوسرے مقام پر دوزخ کا ذکر پہلے ہے۔ پھر اسی اسلوب میں فرمایا گیا ہے:
﴿ قُلْ أَذَلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ﴾ [الفرقان: ۱۵]
’’کہہ دے: کیا یہ (دوزخ) بہتر ہے یا ہمیشگی کی جنت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر.
[2] سنن الترمذي: (۲۵۸۵) سنن ابن ماجہ: (۴۳۲۵) وغیرھما.