کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 168
﴿ أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (62) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (63) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (64) طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (65) فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (66) ﴾ [الصّٰفّٰت: ۶۶۔ ۶۲]
’’کیا مہمانی کے طور پر یہ بہتر ہے یا زقوم کا درخت! بے شک ہم نے اسے ظالموں کے لیے ایک آزمایش بنایا ہے۔ بے شک وہ ایسا درخت ہے جو بھڑکتی ہوئی آگ کی تہ میں اُگتا ہے۔ اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے وہ شیطانوں کے سر ہوں۔ پس بے شک وہ یقینا اس میں سے کھانے والے ہیں، پھر اس سے پیٹ بھرنے والے ہیں۔‘‘
اُوپر کی آیات میں اہلِ جنت کی ضیافت کا ذکر تھا، پھر ضمناً ایک جنتی کے جہنمی دوست کا بیان ہوا ہے جس نے اسے گمراہ کرنے کی پوری کوشش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے فضل واحسان سے گمراہی سے بچائے رکھا جس پر وہ خوشی کا اظہار کرتا ہے اور اپنی کامیابی پر کہتا ہے کہ یہ ہے اصل کامیابی، اس کے حصول کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اب ان آیات میں اہلِ دوزخ کی ’’ضیافت‘‘ کا ذکر ہے۔
﴿ أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا ﴾ ’’النُزُل‘‘ اس کھانے کو کہتے ہیں جوآنے والے مہمان کے لیے تیار کیا جائے۔ یعنی یہ نعمتیں، جن کا اُوپر ذکر ہوا ہے، جنتیوں کو بطورِ ضیافت ملیں گی کیا مہمانی کے طور پر یہ بہتر ہے۔
﴿ أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ﴾ یا زقوم کے درخت کی مہمانی! زقوم کے بارے میں عموماً مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہی درخت ہے جسے ہمارے ہاں تھوہر کہا