کتاب: تفسير سورۂ الصافات - صفحہ 167
اندازہ ہے نہ اس کے اوصاف کا کوئی شمار ہے۔ ﴿ لِمِثْلِ هَذَا ﴾ ایسی ہی کامیابی کے حصول کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔ یہ دنیا کے حصول کے لیے نہیں جس کی نعمتیں زائل ہونے والی ہیں اور نہ انسان وہاں ہمیشہ رہنے والا ہے۔ فنا ہونے والے کا فانی دُنیا کے لیے پاپڑ بیلنا سراسر خسارے کا سودا ہے۔ کامیابی وکامرانی جہنم سے نجات اور جنت کا حصول ہے۔ اسی کے لیے تگ ودو کرنی چاہیے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ بھی جنتی کا قول ہے۔ علامہ شوکانی نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے کہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیے عاملین کو عمل کرنا چاہیے۔ عذابِ قبر پر اعتراض کا جواب: عذاب قبر کا جو بدعتی فرقے انکار کرتے ہیں وہ اپنے استدلال میں یہ آیت بھی ذکر کرتے ہیں: ﴿ أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ (58) إِلَّا مَوْتَتَنَا الْأُولَى ﴾ جس میں بیان ہے کہ انسان کو ایک ہی موت آئے گی، اگر قبر میں زندگی اور حساب و کتاب اور عذاب و عقاب ہے توپھر موت دوبار ہوگئی!۔ علامہ رازی فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض اس لیے درست نہیں کہ پہلی موت سے مراد دُنیا کی موت ہے خواہ وہ قبر میں جانے سے پہلے ہویا اس کے بعد قبر میں موت آئی ہو۔ یعنی قیامت سے پہلے کی جو بھی موت ہے دُنیا کی ہے اور پہلی موت ہے۔ مگر صحیح یہ ہے کہ قبر کی زندگی برزخی ہے۔ اور اس میں ثواب وعقاب برزخی ہے دنیوی حیات پر اس کا قیاس ہی غلط ہے۔ برزخی زندگی میں حس وحرکت ارادی نہیں ہوتی یہ زندگی تام اور مکمل نہیں اس لیے اس پر دُنیاوی موت کا ارتباط ہی درست نہیں۔